اسلامی صنفی انصاف اور مرد و عورت کے فطری حقوق

اسلام کی صنفی تھیوری

اسلام کی صنفی تھیوری میں مرد اور عورت کو ان کی فطری خصوصیات کے مطابق ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ مرد کو قوت و طاقت دی گئی ہے تاکہ وہ بیرونی ذمہ داریاں سنبھال سکے، جبکہ عورت کو اس کی نزاکت اور فطری ساخت کے مطابق گھر اور خاندان کی دیکھ بھال کا اہم کردار دیا گیا ہے۔ اس فرق کو ناانصافی یا امتیاز کے بجائے ایک فطری تقسیم سمجھا جاتا ہے، جو سماج کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔

مرد اور عورت میں فطری امتیازات

  • مرد جسمانی لحاظ سے طاقتور ہے، اسی لیے اس پر معاشی کفالت اور سماجی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔
  • عورت کو نزاکت اور تخلیقی خصوصیات عطا کی گئی ہیں، تاکہ وہ گھر کے اندر تربیت اور بچوں کی پرورش میں بہترین کردار ادا کرسکے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق فطری فرق کے باوجود مرد و عورت کو برابر حیثیت دی گئی ہے۔ دونوں کی مختلف ذمہ داریوں کے باوجود آخرت میں اعمال صالحہ کے لحاظ سے ان کے درجات برابر ہیں۔ (قرآن، سورۃ البقرۃ: 228)

اسلام میں صنفی انصاف اور مغربی صنفی انصاف کا تقابل

اسلامی تصورِ صنفی انصاف، فطری اصولوں پر مبنی ہے، جہاں مرد و عورت کی نزاکتوں اور طاقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حقوق و فرائض دیے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف مغربی تصور میں مساوات کا مطلب ہر شعبے میں یکساں حقوق دینا سمجھا جاتا ہے، چاہے فطرت اس کی اجازت نہ دے۔

مغربی تصور کے نقصانات

  • مغرب میں خواتین کو مردوں کے برابر کرنے کی کوشش میں ان پر وہ ذمہ داریاں بھی ڈال دی گئیں، جو ان کی فطری ساخت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
  • اس کا نتیجہ خواتین کے استحصال اور معاشرتی خرابیوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔

اسلامی صنفی انصاف

اسلام نے خواتین کو ان کی فطری نزاکت کے مطابق عزت اور حقوق دیے۔ انہیں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں اہم مقام عطا کیا۔ (ترمذی، کتاب البر، حدیث: 1898)

عورتوں کے مخصوص مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر

تعدادِ ازواج (Polygamy)

اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے، لیکن شرط یہ رکھی ہے کہ شوہر تمام بیویوں کے ساتھ انصاف کرے۔ اگر عدل ممکن نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم ہے۔ (قرآن، سورۃ النساء: 3)

وراثت میں عورت کا حصہ

اسلام نے عورت کو مرد کے مقابلے میں نصف حصہ دیا، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی طے کیا کہ عورت پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اس کا خرچ باپ، بھائی یا شوہر اٹھائے گا۔ (قرآن، سورۃ النساء: 11)

آدھی گواہی

عورت کی آدھی گواہی کا مطلب کمتری نہیں بلکہ اس کی حفاظت اور شرعی نزاکت کا لحاظ ہے۔ اس کا مقصد عدالتوں میں مردانہ ماحول سے عورت کو بچانا ہے۔ (قرآن، سورۃ البقرۃ: 282)

خاندانی نظام اور اسلام میں نکاح و طلاق

نکاح اور ازدواجی تعلقات

اسلام نے نکاح کو پاکیزہ رشتہ قرار دیا ہے، جس میں دونوں فریقین کے حقوق و فرائض متعین ہیں۔ نکاح کا مقصد خاندان کا استحکام اور معاشرتی ترقی ہے۔

طلاق اور اس کے اصول

اسلام طلاق کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے لیکن ضرورت کے تحت اجازت دیتا ہے۔ طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ شوہر ایک طلاق دے کر عدت کا انتظار کرے تاکہ رجوع کی گنجائش رہے۔ جلد بازی میں تین طلاقیں دینا گناہ ہے۔ (مسلم، کتاب الطلاق، حدیث: 1471)

خواتین کے وراثتی حقوق اور موجودہ چیلنجز

پاکستان جیسے معاشروں میں خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے محروم رکھا جانا عام ہے۔ جہیز کو وراثت کا متبادل سمجھنا شرعی طور پر غلط ہے۔ علماء کرام کا فرض ہے کہ اس ناانصافی کے خلاف مساجد اور دیگر پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائیں۔

وٹہ سٹہ اور قرآن سے شادی

  • وٹہ سٹہ کی شادی: اگر دونوں طرف مہر پورا دیا جائے تو جائز ہے لیکن ایسے رشتے اکثر مسائل کا باعث بنتے ہیں، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔
  • قرآن سے شادی: یہ غیر شرعی رسم ہے اور اسلام اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

صنفی تشدد کے خلاف اسلامی تعلیمات

اسلام غیرت کے نام پر قتل، ونی، کاروکاری، اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے جرائم کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ ان جرائم پر تعزیری سزائیں نافذ کی جانی چاہئیں تاکہ معاشرتی انصاف قائم ہوسکے۔

خواتین کے لیے مساوی ترقی کے مواقع

اسلامی احکام کے مطابق تعلیم، صحت، اور دیگر بنیادی ضروریات میں خواتین کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناانصافی کو ختم کرنا ضروری ہے۔ بیٹیوں کی پیدائش پر غم کرنے کی جاہلانہ سوچ کو ختم کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کا فروغ ناگزیر ہے۔

خلاصہ

اسلامی صنفی تھیوری میں انصاف، فطرت کی ہم آہنگی اور حقوق کی متوازن تقسیم کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو نہ صرف خواتین کی عزت و وقار کا ضامن ہے بلکہ ان کے عملی کردار کو بھی محفوظ بناتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے