اسلام نے سیاست کے متعلق اہم اصول اور قواعد
اسلام نے سیاست کے متعلق اہم اصول اور قواعد متعین کیے ہیں، لیکن حکومت کے عملی ڈھانچے اور تفصیلات کو ہر دور کے اہل علم اور بصیرت پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ اصول ہمیشہ غیر متبدل رہتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کا طریقہ حالات کے مطابق تبدیل ہوسکتا ہے۔
شریعت کے اصول اور تفصیلات کا فرق
◄ شریعت کے اصول ناقابل تبدیلی ہیں اور ہر زمانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
◄ ان اصولوں کی روشنی میں عملی طریقے کو زمانے اور حالات کے مطابق اہل بصیرت طے کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
قرآن کریم میں حکم دیا گیا:
"وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم”
(سورۃ الانفال: 60)
یعنی "دشمنوں کے مقابلے کے لیے جو تیاری کرسکتے ہو، کرو۔”
لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس قسم کا اسلحہ یا آلات بنائے جائیں، کیونکہ یہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہوگا۔
حکومت کے عملی ڈھانچے کی تفصیلات
اسلام نے یہ طے نہیں کیا:
◄ حکومت کے کتنے محکمے ہوں۔
◄ وزرا کی تعداد اور ان کا کردار۔
◄ وحدانی یا وفاقی طرز حکومت۔
◄ ایک ایوانی یا دو ایوانی نظام۔
◄ مشاورت کا طریقہ کار۔
یہ تمام تفصیلات مباحات کے دائرے میں آتی ہیں اور ہر دور کے اہل بصیرت ان کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ابن خلدون کے نظریات
ابن خلدون نے حکومت کی تین اقسام بیان کی ہیں:
1. ملک طبیعی (فطری حکومت):
ایسی حکومت جہاں حاکم اپنی خواہشات اور ذاتی مقاصد کے تحت حکومت کرتا ہے، جیسا کہ مطلق العنان بادشاہوں کا طریقہ۔
2. ملک سیاسی (عقلی حکومت):
ایسی حکومت جہاں حکمران دنیوی مصلحتوں کے تحت عوام پر حکمرانی کرتا ہے۔ سیکولر جمہوریت اس زمرے میں آتی ہے، کیونکہ اس میں کوئی ابدی اصول نہیں بلکہ عقل کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔
3. خلافت (شرعی حکومت):
ایسی حکومت جو شریعت کے مطابق لوگوں کی دنیاوی اور اخروی مصلحتوں کو پورا کرنے کے لیے قائم ہو۔
ابن خلدون نے خلافت کی تعریف یوں کی:
"حمل الکافّۃ علیٰ مقتضی النظر الشرعی فی مصالحھم الاخرویۃ والدنیویۃ الراجعۃ الیھا”
"تمام لوگوں کو ان کے دینی اور دنیوی مفادات کے حوالے سے شرعی بصیرت کے مطابق عمل کرنے پر آمادہ کرنا، جو آخرت کے فوائد کی طرف لوٹتے ہیں۔”
(مقدمہ ابن خلدون، الباب الثالث، الفصل الخامس والعشرون، ص 189)
بادشاہت اور ملوکیت کا جائزہ
ملوکیت کا عمومی تصور
آج کے دور میں ملوکیت کو اکثر شرِ مطلق سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ نظریہ زیادہ تر جمہوریت کے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ:
◄ بادشاہت یا ملوکیت بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی۔
◄ یہ حکمران کے طرز عمل اور اس کے اختیار پر منحصر ہے کہ وہ اصولوں کے مطابق حکمرانی کرتا ہے یا نہیں۔
قرآن میں ملوکیت کی مثالیں
◄ اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت کو "ملک” یعنی بادشاہ بناکر بھیجا، اور اسے اپنے احسان کے طور پر ذکر فرمایا:
"وَجَعَلَکُم مُّلُوکًا”
"اور تمہیں بادشاہ بنایا۔”
(سورۃ المائدہ: 20)
◄ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بادشاہ قرار دیا گیا۔
نام کی اہمیت نہیں، اصول اہم ہیں
بادشاہت، ملوکیت، خلافت یا کوئی بھی نظام ہو، اصل بات یہ ہے کہ:
◄ وہ کن اصولوں پر قائم ہے؟
◄ کیا وہ شریعت کے مطابق ہے؟
اگر حکومت اصولوں پر پورا اترتی ہو تو اس کا نام کوئی بھی ہو، فرق نہیں پڑتا۔
خلافت کا اسلامی تصور
خلافت کے دو معانی
◄ خلافت انفرادی:
ہر انسان جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنی زندگی میں اللہ کے احکام کا پابند ہے اور اس کا خلیفہ ہے۔
"إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً”
"بے شک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔”
(سورۃ البقرۃ: 30)
◄ خلافت اجتماعی:
اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے کسی کو نائب بنانا، جو لوگوں پر اللہ کے احکام کے مطابق حکومت کرے۔
"يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الأَرْضِ”
"اے داؤد! بے شک ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔”
(سورۃ ص: 26)
خلافت کی شرائط
◄ حاکم بالذات نہیں، بلکہ اللہ کا خلیفہ ہے۔
◄ شریعت کے احکام کی مکمل پابندی کرے۔
◄ احکام الہیہ کے مطابق حکومت کرے۔
خلافت اور لادینی نظام کا فرق
◄ خلافت میں حکمران کو شریعت کا پابند ہونا ضروری ہے۔
◄ لادینی نظاموں میں حکمران اپنے ذاتی فیصلوں اور عقل کو مقدم رکھتا ہے، شریعت کا پابند نہیں ہوتا۔
خلاصہ
اسلامی سیاست کے اصول لچکدار ہیں اور ہر زمانے کے حالات کے مطابق نافذ کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کی بنیاد قرآن و سنت کے طے کردہ اصول ہیں۔ بادشاہت، خلافت یا جمہوریت جیسے الفاظ سے فرق نہیں پڑتا، بلکہ اصل بات ان کے تحت نافذ کیے گئے اصولوں اور طریقہ کار کی ہے۔ خلافت اسلامی طرز حکومت کا وہ نظام ہے جس میں حکمران اللہ کے نائب کے طور پر شریعت کے مطابق لوگوں کی دنیاوی اور اخروی مصلحتوں کا خیال رکھتا ہے۔