خدا کی رسالت اور انسانیت کی رہنمائی
ڈاکٹر سید حسین نصر، جو جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اسلامی مطالعات کے پروفیسر ہیں، اسلامی فلسفے اور دین کے اعتدال پسند اسکالر کے طور پر مشہور ہیں۔ ان کی تحریر "Traditional Islam in the Modern World” جدیدیت پر اسلامی فکر کے حوالے سے ایک جامع اور تجزیاتی مقالہ ہے، جس کا ایک حصہ ڈاکٹر سہیل عمر نے اردو میں ترجمہ کر کے اپنی کتاب "حرف بہ حرف” میں پیش کیا۔ یہ تحریر موجودہ دور میں زوال، انحراف اور نشاۃ ثانیہ کی اصطلاحات کے حقیقی مفہوم اور ان کے غلط اطلاق پر روشنی ڈالتی ہے۔
اسلامی معاشروں میں جدیدیت کے اثرات
جدیدیت کے فروغ کے بعد مختلف اسلامی ممالک کے جدیدیت زدہ مسلمانوں میں چند خاص فکری مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ روایتی اسلامی علوم میں مختلف شعبہ جات کے معانی واضح اور متعین رہے، لیکن پچھلی صدی میں کئی جدید مسلمانوں نے اسلامی اصطلاحات کو مبہم انداز میں برتنا شروع کیا، جس سے ذہنی الجھن اور فکری پراگندگی پیدا ہوئی۔
جدید مغربی معیاروں کی تقلید
- جدید مسلمانوں کی تحریروں میں مغربی افکار کی ذہنی غلامی نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ لوگ ایک ایسے "اسلام” کو پیش کرتے ہیں جو روحانی حقیقت سے خالی ہے اور صرف نام اور جذباتی بندھن پر مبنی ہے۔
- ثقافتی تصادم اور احساس کمتری: جدید مسلم مصنفین مغربی تہذیب کے اثرات کو اسلام کے ساتھ ملا کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے حقیقی اسلامی معیارات دھندلا جاتے ہیں۔
اہم اصطلاحات کا تجزیہ
1. زوال
مغربی معیاروں کو پیمانہ بنانا: کئی مسلم مصنفین اسلامی تہذیب کے زوال کو مغربی سائنسی اور فکری ترقی کے معیار پر پرکھتے ہیں۔ وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کا زوال اس وقت سے شروع ہوا جب مسلمانوں نے سائنسدان پیدا کرنے بند کر دیے۔ (سید حسین نصر، "Science and Civilisation in Islam”، صفحہ 21)
اسلامی معیارات کو نظرانداز کرنا: یہ نظریہ اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ اسلامی فلسفہ اور روحانی روایت کبھی زوال پذیر نہیں ہوئی۔ مثال کے طور پر، ایران اور ہندوستان میں اسلامی علوم اور طب کئی صدیوں تک پھلتے پھولتے رہے۔ (Studies in Comparative Religion, Winter 1972, pp. 31-42)
حقیقی زوال کی نوعیت: اسلامی زوال ایک فطری عمل کا نتیجہ ہے، جو وقت کے ساتھ وحی کے مبدا سے دور ہونے کی وجہ سے ہوا۔ تاہم، جدید مصنفین اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار کو غلط طور پر زوال کا شکار قرار دیتے ہیں، جو مسلمانوں کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔
2. انحراف
مغربی تہذیب کے انحراف کا تجزیہ: مغربی تہذیب کو روایتی اسلامی فکر میں ایک عظیم انحراف قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس نے روحانی اقدار کو ترک کر دیا ہے۔ (Rene Guenon, "Crisis of the Modern World”)
3. نشاۃ ثانیہ
مغربی نشاۃ ثانیہ کا موازنہ اسلامی تناظر سے: مغربی نشاۃ ثانیہ نے عیسائی تہذیب کے بنیادی روحانی اصولوں کو کمزور کر دیا اور انسان کو الٰہی مظہر کے بجائے خود مختار بنا دیا۔ یہ رویہ اسلامی نقطہ نظر کے بالکل برعکس ہے۔ (Understanding Islam, Ch3)
اسلامی نشاۃ ثانیہ کے حقیقی معنی: اسلامی نشاۃ ثانیہ کا مطلب اسلامی اصولوں کی تجدید اور ان کے حقیقی اطلاق سے ہے، نہ کہ کسی مغربی طرز فکر کی نقل۔
جدید اسلامی فکر کا مسئلہ
- حدیث اور سنت پر حملے: جدید مفکرین حدیث اور سنت کی اہمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اسلامی معیارات کو ہٹایا جا سکے۔ (S. H. Nasr, "Ideals and Realities of Islam”, pp.79 ff.)
- زوال، انحراف اور نشاۃ ثانیہ کی حقیقی معنویت: قرآن و سنت کو بنیاد مان کر ان اصطلاحات کو صحیح معنوں میں سمجھنا ضروری ہے۔
اصلاح اور تجدید کا راستہ
- اسلام کے ابدی اصولوں کو اپنایا جائے۔
- جدید مغربی اثرات اور خیالات سے آزاد رہا جائے۔
- اصلاح کا آغاز خود سے کیا جائے، کیونکہ ایک سچی تبدیلی اندرونی روحانی تجدید سے شروع ہوتی ہے۔ (H. Corbin, "The Force of Traditional Philosophy in Iran Today”)
اختتام
اسلام کی حقیقی تجدید اور نشاۃ ثانیہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی فکر کو مغرب کے اثر سے آزاد کیا جائے اور وحی کے ابدی اصولوں کو سمجھا جائے۔ یہ عمل اسلامی دنیا کو زوال اور انحراف سے بچانے کا واحد راستہ ہے اور مسلمانوں کے اندر اعتماد اور شعور کو بحال کر سکتا ہے۔