اسلامی حکومت میں اللہ کی حاکمیت اور تھیوکریسی کا فرق

لغوی تعریف

تھیوکریسی یونانی زبان کے الفاظ
"Theo”
(خدا) اور
"Cracy”
(حاکمیت) سے مل کر بنا ہے۔ اس کا مطلب "خدا کی حاکمیت” ہے۔ یہ تصور بنیادی طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کائنات کی اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور انسانی حکومتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع ہونا چاہیے۔

عیسائی دنیا میں تھیوکریسی کی عملی شکل

عیسائیت میں تھیوکریسی کے نفاذ کا عملی مظہر چرچ اور پوپ کا نظام تھا:

  • ◈ پوپ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی تشریح کرے اور بادشاہ کو ان پر عمل کرنے کا پابند کرے۔
  • ◈ نتیجتاً، تھیوکریسی عملی طور پر "مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت” بن گئی۔

چرچ کے مسائل

  • ◈ پوپ کو مذہب کی تشریح کا مطلق اختیار دیا گیا، جس کے باعث بدعنوانی اور بے جا سختیاں عام ہوئیں۔
  • ◈ عوام کی رائے کو نظر انداز کیا گیا کیونکہ حکومتی نظام مذہبی پیشواؤں کے کنٹرول میں تھا۔
  • ◈ عیسائی پیشواؤں کے پاس کوئی مکمل الہامی شریعت موجود نہیں تھی، لہٰذا قوانین ذاتی خواہشات اور مفادات کے تحت بنائے گئے۔
  • ◈ چرچ کا قانون، نہ وحی پر مبنی تھا اور نہ کسی مستند کتاب پر۔

نتیجہ: عوام نے مذہبی پیشواؤں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مذہب کو حکومت سے علیحدہ کر دیا۔ تھیوکریسی کا لفظ مغربی دنیا میں بدنام ہو کر "مذہبی پیشوائیت” کا مترادف بن گیا۔

اسلام اور تھیوکریسی کا فرق

اسلامی تصورِ حاکمیت

اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
"إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ”
"حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔”
(سورۃ الانعام: 57)۔

اسلامی حکومت کی بنیاد

  • ◈ اسلام میں حکومت قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔
  • ◈ شریعت میں انسانی زندگی کے لیے ضروری قوانین موجود ہیں، اور ان قوانین کو کسی فرد یا ادارے کی خواہش کے مطابق تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
  • ◈ نئے مسائل کے لیے اجتہاد کے ذریعے قوانین وضع کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ دین کے اصولوں اور مزاج کے مطابق ہوں گے۔

اسلامی نظام کی خصوصیات

  • ◈ اللہ کی حاکمیت: اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکمران نائب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
  • ◈ اجتماعی مشورہ: حکمران مشورے سے فیصلے کرتے ہیں۔
  • ◈ احتساب: حکمران تنقید سے بالاتر نہیں، عوام اور عدالت کے سامنے جواب دہ ہیں۔
  • ◈ عوامی شراکت: خلافت میں تمام اہل ایمان برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

عیسائی اور اسلامی تھیوکریسی کا فرق

  • ◈ عیسائیت میں مذہبی پیشواؤں کی حکومت تھی، جب کہ اسلام میں تمام مسلمانوں کا مساوی کردار ہے۔
  • ◈ اسلامی حکومت میں قرآن و سنت کی واضح رہنمائی موجود ہے، جب کہ عیسائی چرچ کے پاس ایسی کوئی شریعت نہیں تھی۔
  • ◈ اسلام میں کوئی مخصوص مذہبی طبقہ حکمرانی پر قابض نہیں ہوتا۔

اسلامی تاریخ میں عملی نمونے

خلفائے راشدین کا دور اسلامی حکومت کا مثالی نمونہ ہے:

  • ◈ حکمران قرآن و سنت کے تابع تھے اور عوام کے سامنے جواب دہ تھے۔
  • ◈ خلفائے راشدین کے بعد بھی کوئی خلیفہ یا سلطان قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کرنے کی جرأت نہ کر سکا۔

مثالیں: اسلامی تاریخ میں متعدد واقعات ملتے ہیں جن میں خلیفہ کو قاضی کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کی وضاحت کرنا پڑی۔ خلیفہ کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا سکتا تھا، اور انہیں سزا یا جرمانہ بھی دیا جا سکتا تھا۔

مغربی تعصب اور اسلام

مغربی مؤرخین سیاسی نظریات کی تاریخ بیان کرتے وقت اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں:

  • ◈ ارسطو، افلاطون اور عیسائی دور کے نظریات کا ذکر تو کرتے ہیں، مگر اسلامی خلافت کے تصور پر بات نہیں کرتے۔
  • ◈ تھیوکریسی کے ذکر میں صرف عیسائیت، یہودیت، یا ہندو ازم کی تھیوکریسی کو شامل کرتے ہیں، لیکن اسلام کے سیاسی نظام کو نظر انداز کرتے ہیں۔

نتیجہ: اسلام میں تھیوکریسی کا اصل تصور

اسلامی حکومت میں تھیوکریسی کا مطلب "اللہ کی حاکمیت” ہے، نہ کہ مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری۔ مغربی دنیا نے عیسائی چرچ کی غلطیوں کی بنیاد پر تھیوکریسی کو بدنام کیا۔ اسلام کا نظام حاکمیت واضح، منصفانہ اور تمام انسانوں کے حقوق کا محافظ ہے۔ اسلامی حکومت میں عوام کی رائے، شریعت کی بالادستی اور حکمرانوں کا احتساب بنیادی اصول ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے