اسلام اور عورت کے حقوق: مغربی دعووں کا حقیقت پسندانہ جائزہ
آج کل اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو وہ حقوق فراہم نہیں کرتا جو مغربی معاشرہ دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مغرب عورتوں کے حقوق کا معیار بن سکتا ہے؟ مغربی معاشرت نے "حقوق” کے نام پر عورت کو بظاہر آزاد کر دیا ہے، لیکن حقیقت میں بہت سے فرائض اس پر ڈال دیے ہیں۔ درحقیقت، ترقی پذیر ممالک اور مسلمانوں پر مغربی تہذیب کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور مغربی دنیا یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی معاشرہ ان کے طرزِ زندگی سے ہٹ کر چلے۔
مغرب میں عورت کی آزادی کے دعوے کی حقیقت
روس کے سابق وزیراعظم میخائل گوربا چوف کا اعتراف
روس کے سابق وزیراعظم میخائل گوربا چوف نے اپنی کتاب *پرسٹرائیکا* میں واضح کیا کہ جنگوں کے نتیجے میں افرادی قوت کی کمی کے باعث مغرب نے عورت کو ملازمت پر مجبور کیا۔ انہوں نے بتایا کہ عورت کو برابری، آزادی، اور معاشی خودمختاری کے جھوٹے خواب دکھا کر دفتروں اور کارخانوں میں لے جایا گیا۔ اگرچہ اس سے صنعتیں تو چل پڑیں، لیکن خاندانی نظام برباد ہو گیا۔ گوربا چوف اعتراف کرتے ہیں کہ آج مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ عورت کو اس کے اصل مقام، یعنی گھریلو زندگی، میں کیسے واپس لایا جائے۔
ہیلری کلنٹن کا اعتراف
امریکہ کی سابق خاتونِ اول ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے ایک اسکول میں طالبہ کے سوال کے جواب میں اعتراف کیا کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں بغیر شادی کے مائیں بن جاتی ہیں، جس کے بعد وہ کئی پیچیدہ مسائل میں الجھ جاتی ہیں۔ یہ بیان اس بات کی دلیل ہے کہ مغربی طرزِ زندگی میں عورت کو حقیقی سکون اور تحفظ میسر نہیں۔
اسلام کا عورت کو دیا گیا پہلا حق: حقِ زندگی
اسلام نے سب سے پہلے عورت کو زندہ رہنے کا بنیادی حق دیا۔ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو غربت یا عار کے خوف سے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ قرآن کریم میں ان وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے:
- "خشیۃ املاق” یعنی فاقے کے خوف سے بچی کو بوجھ سمجھ کر مار دیا جاتا۔
- "عار” یعنی لڑکی کی پیدائش کو باعثِ شرم سمجھا جاتا تھا۔
اسلام نے ان تمام ناانصافیوں کا خاتمہ کیا اور لڑکیوں کو عزت، محبت اور تحفظ فراہم کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی چار بیٹیوں کی پرورش کر کے ثابت کیا کہ بیٹیاں باعثِ فخر اور برکت ہوتی ہیں۔ ایک عرب شاعر نے اس انقلابی تبدیلی کو یوں بیان کیا:
"غدا الناس مذقام النبی الجواریا”
(جب سے نبی اکرم ﷺ تشریف لائے ہیں، ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہو گئی ہیں۔)
اسلامی تہذیب کا مقام اور مغربی معاشرے کا زوال
یورپ کے اس دور میں جب عورت کو ناپاک سمجھا جاتا تھا اور انہیں انجیل کو ہاتھ لگانے کی اجازت تک نہ تھی، اُس وقت مسلم دنیا میں قرطبہ کے ایک محلے میں 170 خواتین قرآن مجید کی خطاطی کرتی تھیں۔ (کتاب: شمس العرب تسطع علی الغرب)
جب فرانس کے بادشاہ فلپ پنجم نے 1313ء میں کوڑھیوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا تھا، اسی وقت دمشق میں دنیا کا پہلا ہسپتال تھا جہاں ہر قسم کے مریضوں کا علاج ہوتا تھا۔
مسلمانوں کی موجودہ صورتحال اور سبق
آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی عظیم تہذیبی میراث کو چھوڑ چکے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور دین کو یاد رکھیں، کیونکہ جو قوم اپنی بنیادوں کو فراموش کر دے، وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔
زاہد الراشدی اور حامد کمال الدین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دنیا آپ کے ماضی سے زیادہ آپ کی موجودہ حالت کو دیکھتی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری ترقی دینِ محمد ﷺ سے وابستہ ہے، اور اسے چھوڑنے سے نہ صرف آخرت بلکہ دنیاوی نقصان بھی ہوتا ہے۔
نتیجہ
اسلام نے عورت کو زندگی کا حق، عزت، تحفظ، اور برابری کے ساتھ وہ حقوق دیے جن کا مغرب صرف دعویٰ کرتا ہے لیکن عملی طور پر مہیا نہیں کر سکا۔ ہمیں مغرب پر فخر کرنے کے بجائے اپنی اصل پہچان اور اسلامی تعلیمات کی جانب رجوع کرنا ہوگا۔