معاشرتی اثرات اور مخلوط معاشروں کے مسائل
مخلوط معاشروں میں مختلف مذاہب کے اثرات ایک عام بات ہے، لیکن جب مسلمان غیر اسلامی روایات اپنا لیتے ہیں، تو یہ ان کی کم علمی اور دینی تعلیمات سے دوری کی نشانی ہے۔ برصغیر میں ہندو روایات اور رسومات نے بعض مسلمانوں کے رویے کو متاثر کیا ہے، خاص طور پر خواتین کے حیض اور زچگی کے دنوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ۔
یہودی اور ہندو معاشروں میں حیض کے دنوں میں عورت کا مقام
یہودی تعلیمات:
بائبل کے مطابق، حائضہ عورت کو ناپاک سمجھا جاتا تھا۔ جس بستر پر وہ بیٹھے یا جس برتن کو چھوئے، اسے بھی ناپاک قرار دیا جاتا اور مخصوص قربانیوں کے بعد ہی عورت کو پاک تصور کیا جاتا تھا۔
ہندو معاشرت:
ہندو معاشرے میں بھی حیض کے دوران عورت کو علیحدہ رکھا جاتا تھا اور اس کے رہن سہن میں بہت سی پابندیاں لگائی جاتی تھیں۔
پاکستان کے بعض قبائل:
گلگت کے قریبی علاقوں میں کچھ قبائل آج بھی خواتین کو حیض کے دنوں میں ایک علیحدہ جھونپڑی میں بھیج دیتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ایک خاتون نے بیان کیا:
"مجھے 12 سال کی عمر میں حیض آیا، اور مجھے بھی ان دنوں میں ایک مٹی کی جھونپڑی میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اس دوران نہ تو مجھے سکول جانے دیا جاتا اور نہ ہی کتابیں چھونے کی اجازت تھی۔ گھر کے کاموں سے بھی علیحدہ رکھا جاتا تھا، اور کھانا مجھے ہاتھ میں دینے کے بجائے پھینک دیا جاتا تھا۔”
زچگی کے دوران عورت سے امتیازی سلوک
کچھ علاقوں میں خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد بھی چالیس دن تک ناپاک تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا بستر، برتن اور چارپائی علیحدہ کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ وہ وقت ہے جب عورت کو محبت، توجہ اور ہمدردی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
حقیقت:
زچگی کی صورت میں عورت نے نو ماہ کی تکلیف برداشت کی ہوتی ہے اور وہ بچے کی پیدائش کے بعد شدید جسمانی اور جذباتی سپورٹ کی محتاج ہوتی ہے، نہ کہ علیحدگی کی۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حیض اور زچگی کا معاملہ
اسلام نے عورت کو ان دنوں میں اچھوت یا ناپاک سمجھنے کے تصورات کی واضح طور پر نفی کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اس بارے میں رویہ سراپا شفقت اور محبت تھا۔
حیض کے دنوں میں بیوی سے قربت کی اجازت:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"جب عورت حیض میں ہوتی تو یہودی اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور گھروں میں اکٹھے نہیں رہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’حائضہ سے ہر کام کرو سوائے جماع کے۔‘”
[صحیح مسلم، الحیض، حدیث:302]
بیوی سے جسمانی قربت اور محبت کا اظہار
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ ﷺ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور پھر مجھے گلے لگاتے، حالانکہ میں حیض میں ہوتی تھی۔”
[صحیح بخاری، حدیث:300، صحیح مسلم، حدیث:293]
مزید فرمایا گیا:
"نبی اکرم ﷺ میری گود میں تکیہ بنا کر قرآن کی تلاوت کرتے تھے، حالانکہ میں حیض میں ہوتی تھی۔”
[صحیح بخاری، حدیث:297، صحیح مسلم، حدیث:301]
حائضہ عورت مسجد میں کیوں نہیں آ سکتی؟
حائضہ عورت کو مسجد میں جانے سے روکا گیا ہے، کیونکہ اس خون کو نجاست قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، یہ پابندی امتیازی سلوک نہیں بلکہ سہولت ہے، کیونکہ ان دنوں میں عورت پر فرض عبادات معاف ہیں۔
خلاصہ اور نتیجہ
اسلام نے حیض یا زچگی کے دوران عورت کو معزز مقام دیا ہے۔ جہاں دوسرے مذاہب میں ان دنوں کو ناپاکی کا وقت سمجھا جاتا تھا، وہاں اسلام نے ان ایام میں بیوی سے محبت اور توجہ کا درس دیا ہے۔ حیض کے دوران صرف جماع ممنوع ہے، باقی ہر طرح کا پیار اور قربت جائز ہے۔