اسلامی تاریخ میں بھینس کا ذکر
اس میں کوئی شک نہیں کہ عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھینس کا ذکر نہیں ملتاکیونکہ اس وقت تک بھینس وہاں متعارف ہی نہ ہوئی تھی ، البتہ دوسرے ممالک اور علاقوں میں بھینس کی نسل پائی جاتی تھی ، جیسے افریقہ ، ایشیاء اور مصر وغیرہ چنانچہ ڈاکٹر عبدالغنی ابوالعزم فرماتے ہیں : جاموس ج : جواميس : . . . من كبار البقر ، وهوأنواع : داحن ووحشي ، يوجد بإفريقيا واسيا [معجم الغني الزاهر ڈاكٹر عبد الغني ابوالعزم ، ناشر مؤسة الغنى للنشر ، ديكهئے : ماده نمبر 9119 ]
جاموس ، جاموسہ : جس کی جمع جوامیس آتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ بڑی گایوں میں سے ہیں ، اور اس کی کئی قسمیں ہیں : گھر یلو اور وحشی یہ افریقہ اور ایشا میں پائی جاتی ہیں ۔
علامہ محمد بن عبد الحق یفرنی لکھتے ہیں :
وأما ”الجواميس“ فإنها نوع من البقر فى ناحية مصر تعوم فى النيل ، وتخرج إلى البر ، ولكل بقرة منها قرن ، واحد ، والواحد منها : جاموس [الاقتصاب فى غريب الموطاء إعراب على الأبواب 1/ 295 ]
رہیں بھینسیں : تو وہ گائے کی ایک قسم ہیں ، جو مصر کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ، نیل میں تیرتی گھومتی رہتی ہیں ، اور باہر خشکی میں بھی نکلتی ہیں ، اور ان میں سے ہر گائے کو ایک سینگ (کو بان ) ہوتی ہے اور اس کا واحد جاموس کہلاتا ہے ۔
لیکن کتب تاریخ وسیر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے بعد کے ادوار میں بھینس کا وجود کسی نہ کسی طرح رہا ہے ، ہمارے اسلاف اس سے متعارف ہوئے اور گائے بیل کی طرح ہزاروں کی تعداد میں اسے پالا [ چنانچه عمر رضا كحاله مشقي رحمه الله نے معجم قبائل العرب ميں لكها هے كه ملك شام كے علاقه بلقاء كے قبائل ميں سے ايك قبيله كانام ”الجاموس هے ، اس قبيله كے جدا على كا اصلي نام احمد هے ، انهوں نے جولان سے بلقاء هجرت كي ، چونكه و ”بقر الجوا ميں بهينسوں كے بهت بڑے ريوڑ كے مالك تهے ، اس لئے ان كانام هي جاموس پڑ گيا اور ان كي ذريت كو جواميس كے نام سے ياد كيا گيا ، ان كے مكانات طبر بور كے علاقه ميں آج بهي موجود هيں ۔ ديكهئے معجم قبائل العرب القديمه والحديث 1 / 220 ] ، قربانی کی اور دیگر بہت سے کاموں میں استعمال کیا مثلاً ، اس کا دودھہ پیا ، اس سے تثخج وغیرہ امراض کا علاج کیا تحفے دئے ، اس کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے در دندوں کو بھگانے کے لئے راستوں اور جنگلات میں بڑی تعداد میں چھوڑ اوغیر ہ ذیل میں اسلامی تاریخ کے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :
(1) علی رضی اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :
الجاموس تجزي عن سبعة فى الأضحية [ الفردوس بماثور الخطاب للد ليلي 2/ 124 نمبر 2650 ، اس روايت كو صاحب المرعاة شيخ الحديث رحمه الله نے بهي دوران كلام نقل فرمايا هے ، مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 81/5 ۔ معروف داعي و مصنف شيخ محمد منير قمر حفظه الله اس حديث پر تعليق لكهتے هيں : يه حديث على بن ابي طالب رضى الله عنه سے مروي هے اور اسے شير و يه بن شهر دار يليمي نے” الفردوس“ 2272 ميں ذكر كيا هے ۔ دليمي نے اس كتاب ميں احاديث كو بلا اسناد ذكر كيا تها ، بعد ميں ان كے بيٹے شهر دار بن شيرويه نے مسند الفردوس ميں اس كي بيشتر احاديث كو بالاسناد روايت كيا اور اس ميں كچه احاديث كا اضافه بهي كيا مگر اس كا تقريباً حصه مفقود هے اس لئے اس حديث كي سند كے بارے ميں كچه نهيں كها جا سكتا مگر اس كے ضعيف هونے كے ليے يهي كافي هے كه اس كو ذكر كرنے ميں دليمي منفرد ميں واضح رهے كه ”الفردوس“ كي سب روايات ضعيف اور غير معتبر نهيں هيں بلكه اس ميں صحيح احاديث بهي هيں“ ۔ ديكهئے : سوئے حرم بس 404 ۔ ]
بھینس کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے کافی ہو گی ۔
(2) پچھلے صفحات میں تابعین تبع تابعین اور ان کے بعد کے ائمہ جسن بصری خلیفہ عمر بن عبد العزیز ، ابوعبید قاسم بن سلام ، اسی طرح امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ کا تذکر ہ آچکا ہے کہ انہوں نے بھینسوں میں گائے کے نصاب کے مطابق زکاۃ واجب قرار دیا ہے ۔
(3) ابونعمان انطاکی فرماتے ہیں کہ انطاکیہ اور مصیصمہ کا درمیانی راستہ شیر و غیرہ درندوں کی آماجگا ، تھا ۔ لوگوں کا وہاں سے گزرنا محال تھا ، چنانچہ ولید بن عبد الملک نے خلیفہ معتصم باللہ سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے چار ہزار بھینس اور بھینسے اس طرف بھیجے جس سے اللہ نے یہ مسئلہ حل کر دیا اور وہاں سے درندے ختم ہو گئے ۔
نیز سندھ میں حجاج بن یوسف کے گورنر محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے سندھ سے کئی ہزار بھینسیں بھیجیں ، جن میں سے چار ہزار بھی ہیں حجاج بن یوسف نے ولید کی خدمت میں بھیجا اور بقیہ بھینسوں کو کسکر کے جنگلات میں چھوڑ دیا ۔ نیز یزید بن عبد الملک نے بھی چار ہزار بھنیسیں مصیصہ کے لئے بھیجیں ، چنانچہ مجموعی طور پر مصیصہ میں آٹھ ہزار بھینسیں روانہ کی گئیں ۔ [ فتوح البلدان ص : 168 ، و بغية الطلب فى تاريخ ملب 1/ 159 والخراج وصناعة الكتابة ، از قدامه بن جعفر بغدا دي ص : 309 ]
(4) اموی خلافت کے زوال و انحطاط کے اسباب کے ضمن میں ایک سبب بیان کرتے ہوئے علی محمد محمد صلابی لکھتے ہیں :
اس دور میں حیوانات اور مویشیوں کی پیداوار بہت کم ہوگئی تھی ، بالخصوص کاشت کے جانور ،
جس کے سبب والی عراق کو حالات سے نمٹنے کے لئے مجبور اً یہ حکم صادر کرنا پڑا کہ گائیں ذبح نہ کی جائیں ، ساتھ ہی والی عراق نے اقلیم سندھ سے بڑی تعداد میں بھی نہیں منگوایا تاکہ کاشت کے جانوروں کی قلت پر قابوپایا جا سکے ۔
اسی طرح خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں کچھ ایسی کارروائیاں بھی کی گئیں جن سے علاقہ میں کاشتکاری کی مشکلات میں آسانی پیدا ہو سکے مثلاًً حجاج بن یوسف نے ملک سندھ سے کاشتکاروں کی ایک تعداد کو ان کے گھر بار اور بھینوں سمیت اپنے ملک منتقل کر لیا اور انہیں ایک خبر اور ویران سرزمین میں بسا دیا ، جسے انہوں نے آباد کر دیا ۔ [ ديكهئے : الدولة الأموية عوامل الازدبارو تداعيات الانبياء 1 / 689 ]
(5) عبداللہ بن ابوبکر ہ رحمہ اللہ [عبيد الله بن ابي بكر و كي پيدائش سنه 14ھ ميں اور وفات سنه 97ھ ميں هوئي ، ديكهئے : سير اعلام النبلاط الرسالة 4/ 138 نمبر 44 ۔ اور واضح رهے بعض روايتوں ميں يه واقعه عبيد الله كے بهائي عبدالرحمن بن ابوبكر ه كے حواله سے منقول هے ، جس ميں صراحت هے كه امام محمد بن سيرين رحمه الله نے ان كي خدمت ميں آكر عرض كيا كه ميرے قبيله كے ايك شخص كو فلاں بيماري لگ گئي هے ۔ عبد الرحمن كي پيدائش سنه 14 ھ ميں اور وفات سنه 99ھ ميں هوئي ۔ ديكهئے : سير أعلام النبلا طبع الرسالة 4 / 411 نمبر 161 ، جبكه محمد بن سيرين رحمه الله كي پيدائش سنه 20 ه ميں اور وفات سنه 110ه ميں هوئي ، ديكهئے : سير أعلام الشبلاط الرسالة 4 / 606 نمبر 246 ]
نہایت سنی اور فیاض شخص تھے ، اپنے گھر کے چاروں سمت دائیں بائیں اور آگے پیچھے چالیس چالیس پڑوسیوں پر پورے سال بہت خرچ کرتے تھے ، اور عید کی مناسبتوں پر تحفے تحائف ، کپڑے اور قربانی کے جانور دیتے ، غریبوں کی شادیاں کراتے مہریں تک ادا کرتے ، اور سال بھر کے علاوہ ہر عید کے موقع پر سوغلام آزاد کرتے تھے ۔
ابومحروم کے واسطے سے اصمعی بیان کرتے ہیں کہ عتیک کے ایک خوبر و شخص کو تثنج کی بیماری لگ گئی تو ان کی قوم کے کچھ لوگ عبید اللہ بن ابوبکر و رحمہ اللہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: ہمارے ایک ساتھی کو تثنج کی بیماری ہوگئی ہے ، اور کسی حکیم نے اس کے لئے انہیں کچھ دن مسلسل بھینس کا دودھ پینے کا علاج تجویز کیا ہے ، اور میں معلوم ہوا کہ آپ کے پاس بھینسیں ہیں ، تو انہوں نے اپنے وکیل لطف سے پوچھا کہ اپنے پاس کتنی بھینسیں ہیں ؟ کہا: تین سو انہوں نے کہا: یہ ساری بھینسیں انہیں دید و ! انہوں نے عرض کیا : ہم اتنی بھی نہیں کیا کریں گے ہمیں تو بس ایک بھینس بطور عاریہ چاہئے جسے ہم علاج کے بعد واپس لوٹا دیں گے ، انہوں نے کہا: ہم بھینسیں ادھار نہیں دیتے ، بلکہ یہ ساری بھینسیں تمہارے مریض کے لئے ہدیہ ہیں ۔ [ تاريخ ومشق لابن عساكر 13/36 , و 38/ 138 ومختصر تاريخ دمشق 62/15 ، و 8/16 ، وسير أعلام النبلاء لعد بي بطبع الرسالة 4 / 138 ، و319 ، و 411 ، و تاريخ الاسلام تحقيق تدمرى 410/6 ، وأنساب الأشرات للبلاذري 1/ 499 ]
(6) ملک شام میں بھینسوں کی آمد :
مشہور مورخ حسین بن علی مسعودی ملک شام میں بھینسوں کی آمد کے بارے میں دو تاریخیں بتائی ہیں :
1۔ سب سے پہلے یزید بن عبد الملک کے دور خلافت (101-105 ھ ) میں بھینسیں ملک شام اور شام کے ساحلوں پر آئیں اور یہ بھنیسیں دراصل اہل مہلب کی تھیں جو بصر ، بطائح اور رطفوف وغیرہ میں رہا کرتی تھیں لیکن جب یزید نے ابن مہلب کو قتل کر دیا تو بہت ساری بھینسوں کو اپنے علاقوں میں منتقل کر لیا ۔
(2) دوسری رائے یہ ہے کہ بھینسیں سب سے پہلے معتصم کے دور خلافت (218 – 227 ) میں ملک شام میں آئیں ، جب معتصم نے زط پر قابض ہو کر انہیں وہاں سے جلا وطن کر دیا اور خراسان اور عین زربہ کے راستے سے نائین اور جلولاء وغیرہ میں بہا دیا ، اس وقت سے بھینسیں ملک شام میں داخل ہوئیں ، اس سے پہلے وہاں بھینسیں معروف نہ تھیں ۔ [ التنبيه والاشراف از حسين مسعودي 307/1 نيز ديكهئے : كناشه النوادر ص : 66 ]
(7) ملک یمن میں بھینسوں کی قدیم آمد :
استاذحسن عبد اللہ قرشی اپنے مقالے میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اسلام سے پہلے عرب ممالک پر یمامہ وغیرہ کے علاقوں میں شاداب زمین اور کشادہ چراگاہوں کا انعام فرمایا تھا ، چنانچہ جرمنی سیاح شونیفرت نے ملاحظہ کیا ہے کہ گندم ، جو ، بھینس ، بکریاں مینڈھے اور ان کے علاوہ دیگر مویشی یمن اور قدیم عرب علاقوں میں اپنی حالت میں اس وقت پائے گئے ، جب مصر اور عراق میں مانوس نہ تھے ۔ [مجلة مجمع اللغة العربية بالقاهرة ، شماره 96 ، مقاله : ”التاثير المتبادل بين الثقافة العربية والأجنبية ، از استاذ حسن عبد الله القرشی ]
(8) بشر یا بشیر طبری یا طبرانی کے پاس تقریباً چار سو بھینس تھیں ، رومیوں نے ان کی چارسون بھینسوں پر شبخون مارا اور ہانک لے گئے ، ان کے غلاموں نے انہیں اس کی اطلاع دی ، اور کہا بھینسیں چلی گئیں تو انہوں نے کہا جاؤ تم سب بھی اللہ کی رضا کے لئے آزاد ہو ، ان غلاموں کی قیمت ایک ہزار دینار تھی ! یہ سن کر ان کے بیٹے نے کہا: ابا ! آپ نے تو ہمیں فقیر اور قلاش بنا دیا ! انہوں نے کہا: بیٹے چپ رہو ، اللہ نے مجھے آزمایا تو میں نے چاہا کہ اللہ کی راہ میں مزید قربانی دوں اور اس کا شکر بجا لاؤں ۔ [ شعب الايمان 12/ 407 نمبر 9649 حلية الأولياء 10/ 130 ، دالوافي بالوفيات 10/ 99 ۔ والرضا عن الله بقضائه لابن أبى الدنيا ص : 19/55 ، وصفته الصفوة 2/ 762/388 ، وربيع الأبرار ونصوص الأخيار 3/ 65/103 ، والتذكرة الحمدونية 4/ 796/323 ، وحياة السلف بين القول والعمل ص : 281 ، وأصول الوصول الي الله تعالىٰ ص : 188 ]
(9) سنہ 270 ھ میں احمد بن طولون رحمہ اللہ کی وفات ہوئی ، ہوا یہ کہ وہ مصر و شام سے طرطوس تشریف لے گئے ، اور جب واپسی میں انطاکیہ پہنچے تو انہیں بھینس کا دودھ پیش کیا گیا ، انہوں نے زیادہ مقدار میں دودھ پی لیا ، جس سے ان کا پیٹ پھول گیا اور سخت بد ہضمی ہوگئی ، جس سے ان کی موت واقع ہوگئی ۔ آپ کی امارت تقریباً چھبیس سال رہی اور وفات کے بعد آپ کے صاجبزادے خمارویہ نے منصب امارت سنبھالا ۔ [ المختصر فى آخبار البشر 2/ 53 نيز ديكهئے : تاريخ ابن الوردي 231/1]
(10) استاذ لبیب سید اسلامی نظام میں در آمد و برآمد کے عنوان سے اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں :
اسلامی نظام میں مویشیوں کی درآمد و برآمد کا سلسلہ قدیم ہے ، چنانچہ مصر قربانی کرنے کے لئے بہت سارے مویشی برقہ سے درآمد کرتا تھا ، جیسا کہ یہ سلسلہ آج بھی ہے ۔ اور عراق گھوڑے عرب ممالک بالخصوص سر زمین حسا سے درآمد کرتا تھا ، اسی طرح چوتھی صدی ہجری میں بھینس ہندوستان سے درآمد کرتا تھا ۔ [ مجلة الرسالة شماره 757 ص 76 / تاريخ : 05 – 01 – 1948 مقاله : ”الاستيراد والتصديرفى النظم الاسلامية“ ، از استاذ لبيب السعيد ]
(11) عمر بن احمد ابن العدیم رحمہ اللہ نے حلب میں سعد الدولة حمدانی کے دور حکومت (356 تا 381ھ) کے بارے میں لکھا ہے : اگر کوئی رومی اسلامی حکومت میں داخل ہو جاتا تھا تو اسے اپنی ضرورت سے منع نہیں کیا جاسکتا تھا ، اور اگر اسلامی ملک سے کوئی بھینس ملک روم میں چلی جاتی تھی تو اسے ضبط کر لیا جاتا تھا ۔ [ زہدة الحلب فى تاريخ حلب ص : 97]
(12) عمر بن احمد ابن العدیم رحمہ اللہ ہی نے پانچویں صدی ہجری میں لکھا ہے کہ طلب میں ایک اتنی بڑی وبار پھیلی کہ سنہ 457ھ کے صرف ماہ رجب میں چار ہزار لوگوں کی موت ہوگئی ، جب کہ دیگر مہینوں کے اموات اس کے علاوہ ہیں ۔
اور اسی سال ترکیوں کا ایک بہت بڑا جتھا نکلا ، ان میں سے کچھ تو دلوک میں رک گئے اور اور ایک ہزار کے قریب لوگ آگے بڑھے ، اور انہوں نے شہر انطاکیہ کو پورے طور پر لوٹ لیا ، اور تقریباًً چالیس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ بھینسیں لے کر چلے گئے ، یہاں تک کہ بھینس ایک دینار میں بک رہی تھی ، اور زیادہ سے زیادہ دو تین دینار میں ۔ اور گائیں ، بکریاں ، گدھے اور لونڈیاں اتنی زیادہ تھیں کہ شمار نہ ہو سکی ، لوٹڈی دو دینار میں فروخت ہو رہی تھی اور بچے تو گھوڑے کی نعل کی بندھن کے عوض بک رہے تھے ۔ [ زہدة الحلب فى تاريخ حلب ص : 170 ]
(13) شاہ افضل کی وفات سنہ 515ھ میں ہوئی ، انہوں نے اپنے موت کے بعد بڑی دولت چھوڑی ، جس میں کروڑوں دینار و درہم کئی ہزار ریشمی جوڑے ، اور پانچ سو صندوق بھر ذاتی کپڑے تھے ، غلام ، گھوڑے ، خچر اور خوشبو وغیرہ اتنی تھی کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے ، اور بھینسیں ، گائیں اور بکریاں اتنی زیادہ مقدار میں تھیں کہ بتانے میں شرم آئے ، ان جانوروں سے دودھہ کی آمدنی صرف افضل کی وفات کے سال تیس ہزار دینا تھی ۔ [ تاريخ الاسلام تحقيق تدمري ۔ 385/35 – 387 نمبر 92 ، ووفيات الاعيان 2 / 451 ]
(14) علامہ زین الدین ابن شاہین حنفی ظاہری سنہ 890ھ کے حوادث میں لکھتے ہیں :
ذی القعدہ سنہ 890ھ میں گائے بھینس اور اونٹوں کی بہت بڑی تعداد موت کے گھاٹ اترگئی ایسا محسوس ہوا کہ گویا ان میں کوئی وباء داخل ہوگئی ہے ، بالخصوص بھینسیں ۔ [ نيل الأمل فى ذيل الدول 7/ 431 ]
(15) علامہ عبد الرحمن جبرقی رحمہ اللہ نے (سنہ 1188ھ ) میں ایک نیک خاتون کی سیرت کے ضمن میں لکھا ہے کہ وہ رمضان کی ہر شب دو پیالہ ثرید فقہاء ، ایتام اور فقراء ومساکین کو بھیجا کرتی ہیں اور عید الاضحی میں انہیں تین بھینسیں دیتی تھیں ۔ [تاريخ عجائب الآثار فى التراجم والأخبار 1 / 612 ]
اور سنہ 1225ھ میں لکھا ہے کہ حاکم وقت عید الاضحی کے دن مسجد کے مدرس اور طلبہ کے لئے بھینسیں اور مینڈھے خریدتا تھا ، اور انہیں ذبح کر کے فقراء اور ملازمین میں تقسیم کرتا تھا ۔ [ تاريخ عجائب الآثار فى التراجم والأخبار 4 / 265 ]
خلاصہ کلام اینکہ اسلام اور اسلامی مالک کی تاریخ کے کم و بیش ہر دور میں بھینسوں کا ذکر اور اس کے پالنے پوسنے اور اس سے مختلف انداز سے استفادہ کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ واللہ اعلم