اسلامی اخوت اور باہمی حقوق کی اہمیت
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا تحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم على بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره التقوى ها هنا ‏‏‏‏ ويشير إلى صدره ثلاث مرات: ‏‏‏‏بحسب امرىء من الشر ان يحقر اخاه المسلم. كل المسلم على المسلم حرام: دمه وماله وعرضه ‏‏‏‏ [ اخرجه مسلم ]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ایک دوسرے پر حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے مقابلے میں اراده خرید کے بغیر بولی نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے دلی دشمنی نہ رکھو، ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے تقویٰ یہاں ہے اور آپ اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشاره فرماتے تھے۔ آدمی کو برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر جانے۔ مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا)
تخریج : [مسلم، البر والصلة/32]
وغیرہ دیکھتے تحفۃ الاشراف [456/10]
مفردات : بِحسْبِ امْرِءٍ میں باء زائدہ ہے اور حسب امری مبتداء ہے اور ان يحقر اخاه المسلم جملہ بن کر مصدر کی تاویل میں ہو کر اس کی خبر ہے۔
فوائد :
لَا تَحَاسَدُوْا یہ باب تفاعل ہے جو دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر حسد مت کرو۔ کوئی حسد کرے تو اس کے جواب میں بھی اس پر حسد نہ کرو۔ حالانکہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی اجازت ہے :
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا [42-الشورى:40]
” برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے۔“
مگر مسلمان پر حسد کے جواب میں بھی حسد جائز نہیں تو جو تم پر حسد نہیں کرتا اس پر حسد تو بطریق اولیٰ حرام ہے۔ حسد کی تفصیل اور علاج کے لئے دیکھئے اس باب کی پہلی حدیث،
وَلَا تَنَاجَثُوْا یہ بھی باب تفاعل ہے۔ لغت میں نجش کا معنی شکار کو اس کی جگہ سے اٹھانا اور نکالنا ہے تاکہ پھر اسے شکار کیا جا سکے یہاں مراد یہ ہے کہ جب کوئی سامان فروخت ہو رہا ہو بولی: میں اس کی قیمت لگائی جا رہی ہو تو کوئی شخص دوسرے سے بڑھ کر اس کی قیمت لگا دے جب کہ اس کا ارادہ اسے خریدنے کا نہ ہو تاکہ دھوکے میں اگر کوئی دوسرا شخص اس سے بڑھ کر قیمت لگا کر پھنس جائے یہ دھوکا ایک دوسرے کے مقابلے میں کرنا بھی حرام ہے۔ تو اس شخص کے ساتھ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہے جو آپ سے یہ معاملہ نہیں کرتا۔
وَلَا تَبَاغَضُوْا یہ بھی تحاسدوا کی طرح باب تفاعل ہے۔ اور اس میں بھی وہی نکتہ موجود ہے کہ جو مسلمان تم سے بغض رکھے تم مقابلے میں بھی اس سے بغض مت رکھو اور اگر کوئی تم سے بغض نہیں رکھتا اس سے بغض رکھنا تو اور زیادہ برا ہے۔ اس حکم کی رو سے وہ کام بھی حرام ٹھہرے جن سے آپس میں دلی عداوت پیدا ہوتی ہے۔
وَلاَ تَدَابَرُوْا یہ دُبُر یعنی پیٹھ سے باب تفاعل ہے۔ ایک دوسرے کی طرف پیٹھ مت کرو، مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو ایک دوسرے سے بول چال بند نہ کرو کیونکہ جب دو آدمی ایک دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں یہ حالت تین دن سے زیادہ رکھنا حرام ہے۔
ایک دوسرے کی بیع پر بیع مت کرو :
جب دو مسلمانوں کی آپس میں بیع ہو چکے تو کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیچنے والے سے کہے کہ تم یہ چیز میرے ہاتھ میں فروخت کرو میں تمہیں زیادہ قیمت دیتا ہوں نہ خریدنے والے سے یہ کہنا جائز ہے کہ تم یہ چیز مجھ سے خریدو میں تمہیں سستی دیتا ہوں پہلی فسخ کر دو اس سے آپس میں شدید عداوت پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر دو فریقوں میں نکاح کی بات طے ہو چکی ہے صرف عقد باقی ہے تو کسی تیسرے کو ان کی بات ختم کروا کر اپنا پیغام بھیجنا جائز نہیں۔ ہاں اگر بیع طے نہیں ہوئی اور اسی طرح ابھی رشتہ طے نہیں ہوا تو ہر شخص خریدنے کے لئے کہہ سکتا ہے کہ میں اتنی قیمت پر خریدتا ہوں اسی طرح ہر شخص نکاح کا پیغام بھی دے سکتا ہے۔
اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ :
یعنی اللہ کے بندے ہو تو اس کا حکم مانو۔ بندے کا کیا کام ہے کہ اپنی بات چلائے۔ پانچ چیزوں سے منع کرنے کے بعد علم یہ دیا کہ نسبی بھائیوں کی طرح آپس میں بھائی بن جاؤ۔ تمہارے درمیان سگے بھائیوں کی طرح باہمی شفقت، رحمت، محبت، غمخواری، معاونت اور خیر خواہی ہونا چاہیے۔
وہ چیزیں جن سے اسلامی اخوت کا اظہار ہوتا ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ پھر اس اخوت کو ظاہر کرنے والی تین چیزیں بیان فرمائیں۔
1۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا۔ نہ اس کی جان پر، نہ مال پر، نہ عزت پر۔
2۔ وہ اس کی مدد نہیں چھوڑتا اگر وہ مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچاتا ہے اگر وہ ظالم ہے تو اس کی مدد اس طرح کرتا ہے کہ اسے ظلم سے روکتا ہے۔
3۔ اسے حقیر نہیں جانتا۔ کیونکہ مسلمان کو حقیر جانے کی ابتداء تکبر سے ہوتی ہے اور تکبر ایمان کے منافی ہے۔ صحیح مسلم میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الكبر بطر الحق وغمط الناس [صحيح مسلم ح : 91، الإيمان 39 ]
” تکبر حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “
متکبر آدمی دوسرے کو حقیر جاننے کی وجہ سے انہیں اس لائق ہی نہیں سمجھتا کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا اس پر فرض ہے۔
تقوی کیا ہے اور کہاں ہوتا ہے ؟ :
تقویٰ کا لفظی معنی ڈرنا اور بچنا ہے۔ اللہ کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کے ثواب کی امید کے ساتھ اس کے تمام احکام پر عمل کیا جائے اور اس کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کی تمام منع کردہ چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔ تقویٰ دل میں ہوتا ہے اور اس کا اثر تمام اعضاء پر ظاہر ہوتا ہے۔
مسلمان کو حقیر جانے کا گناه :
فرمایا : ”آدمی کو برا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر جانے کیونکہ اسے حقیر جاننے کی وجہ تکبر ہے اور تکبر اللہ تعالیٰ سے مقابلہ ہے یہ صرف اللہ کو زیب دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
الكبرياء ردآئي اذاري، فمن نازعني واحدا منهما، قذفته فى النار [صحيح ابي داؤد، ح : 3446، اللباس 28 ]
”کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے، جس شخص نے ان دونوں میں سے کسی ایک پر مجھ سے مقابلہ کیا میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔ “
اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يدخل الجنة من كان فى قلبه مثقال ذرة من كبر [مسلم ]
”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی تکبر ہو گا۔“
كُلُّ مُسْلِمٍ اور كُلُّ الْمُسْلِم میں فرق : كُلُّ مُسْلِمٍ کا معنی ہے ہر ایک مسلمان اور كُلُّ الْمُسْلِم کا معنی ہے مسلمان کا کل، مسلمان کا ہر ہر حصہ، مسلمان کی ہر چیز، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی وضاحت فرما دی کہ مسلمان کی ہر ایک چیز اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔