اسلامی اجتماعیت پر لبرل نظریات کا وار اور اس کا حل
تحریر حامد کمال الدین

ماضی کے سرخ انقلاب اور حال کا لبرل ازم

چند دہائیوں قبل پاکستان نے سرخ انقلاب (کمیونزم) کے ساتھ کامیاب معرکہ کیا تھا، اور آج ہمیں لبرلز اور سیکولرز کے فکری حملے کا سامنا ہے۔ کمیونسٹ نظریہ روس سے متاثر تھا، جبکہ موجودہ لبرل ازم مغربی، بالخصوص امریکی حمایت یافتہ ہے۔ پہلے افغانستان میں عسکری محاذ پر اور پاکستان میں نظریاتی محاذ پر لڑائی ہوئی، اور موجودہ صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ لبرلز مکاری اور شاطر انداز میں شریعت کی اصل روح پر وار کرتے ہیں، اور معاشرے کے مذہبی طبقے میں شرعی دلائل کی بنیاد پر شکوک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلامی اجتماعیت پر حملہ

آج جب دنیا میں مسلمانوں کی اجتماعی شناخت کو مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ایک نیا فکری دھارا سامنے آیا ہے جو مسلم اجتماعیت کے تصور کو ہی رد کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق:

  • شریعت کسی مسلم امت یا مسلم ملک کی متقاضی نہیں۔
  • خلافت اور مسلم ریاست جیسے تصورات غیر ضروری اور شریعت کے خلاف ہیں۔
  • مسلمانوں کا اجتماعی وجود دین کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔

یہ نظریہ نہ صرف نظریہ پاکستان کو جھٹلاتا ہے بلکہ تحریک پاکستان کی تمام بنیادوں کو بھی رد کرتا ہے۔ وہ نظریہ جس نے مسلمانوں کو "امت واحدہ” کی حیثیت میں متعارف کرایا اور علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا، اس نئے بیانیے کی نظر میں بےبنیاد ہے۔

فرد پرستی کا نیا دھوکہ

یہ جدت پسند بیانیہ "فرد” کو دین کا واحد محور قرار دیتا ہے اور سوسائٹی یا ریاست کی دینی حیثیت کو رد کرتا ہے۔ ان کے نزدیک دین کا تعلق صرف فرد کی ذات سے ہے، اور یہ اجتماعیت کے تصور کو غیر اہم بنا دیتے ہیں۔

فرد اور سوسائٹی کی باہمی ضرورت

اسلام فرد اور سوسائٹی دونوں کے لئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ فرد اور ملت کا تعلق ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہے:

  • فرد کی اصلاح: اسلامی ریاست اور معاشرہ ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں فرد کو نیکی کی طرف راغب کیا جائے۔
  • ملت کا تحفظ: ایک مضبوط اسلامی سوسائٹی اور ریاست فرد کے ایمان اور اخلاق کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔

یہ خیال کہ فرد کسی ریاست یا اسلامی سوسائٹی کے بغیر اپنے دین پر قائم رہ سکتا ہے، ایک غیرحقیقی سوچ ہے۔

اسلامی ریاست کی ضرورت

اسلامی ریاست دین کے مقاصد کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف فرد کو دین پر چلنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے بلکہ شیطان کے راستے بند کرنے کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔

شیطان کے راستے بند کرنے کا فریضہ

اسلامی معاشرے کا ایک مقصد یہ ہے کہ برائی کے ذرائع کو محدود کیا جائے اور نیکی کے راستے کھولے جائیں۔ اس کے بغیر:

  • عام فرد بدی کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔
  • دین پر چلنا ایک غیرمعمولی چیلنج بن جاتا ہے۔

اسلامی نظم و امارت اسی مقصد کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں نیکی کا غلبہ ہو اور بدی کے راستے مسدود کیے جائیں۔

اجتماعیت کی اہمیت

اسلام فرد کی سطح پر عبادت کے ساتھ ساتھ جماعتی سطح پر بھی اس کا مطالبہ کرتا ہے۔

لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ

(اسلام جماعت کے بغیر نہیں، جماعت امارت کے بغیر نہیں، اور امارت اطاعت کے بغیر ممکن نہیں)

اسلامی اجتماعیت کے بغیر:

  • فرد شیطانی نظام کے خلاف مزاحمت میں ناکام ہو سکتا ہے۔
  • اسلامی تعلیمات کی صحیح تطبیق ممکن نہیں۔

نتیجہ

اسلام کا مکمل نفاذ فرد اور سوسائٹی دونوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ فرد کی اصلاح اور سوسائٹی کی تعمیر، دونوں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں۔ اسلامی ریاست اور اجتماعیت کا قیام دین کا حصہ ہے، اور اس کے بغیر دین کا صحیح نفاذ ناممکن ہے۔

حوالاجات

  • سہ ماہی ایقاظ، "اسلام میں فردپرست نظریات کے پھیلاؤ”، جولائی 2012، اداریہ۔
  • سہ ماہی ایقاظ، "ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات”، جنوری 2014۔
  • قرآن کریم، سورہ المائدہ: 3۔
  • قرآن کریم، سورہ آل عمران: 103۔
  • سہ ماہی ایقاظ، تحریر: حامد کمال الدین۔
  • روزنامہ جنگ، لبرل نیریٹو پر مباحث۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے