اسلام، نیشنلزم اور انسان کے فطری جذبات کا تقابل

اسلام ایک جامع دین اور فطری اصولوں کا نگہبان

اسلام انسانی جذبات کو ان کے فطری دائرے میں تسلیم کرتا ہے۔ انسان کے اپنے قبیلے، زبان، علاقے، اور قوم سے محبت جیسے جذبات اس کے فطری رجحانات میں شامل ہیں۔ شریعت ان جذبات کی نفی نہیں کرتی بلکہ ان کے صحیح رخ اور حدود کا تعین کرتی ہے تاکہ یہ جذبے فساد یا ظلم کا باعث نہ بنیں۔

طبعی جذبات اور عصبیت کا فرق

  • جائز محبت: اپنی قوم، زبان، یا علاقے سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے اور شریعت اسے ناجائز قرار نہیں دیتی۔
  • عصبیت: جب یہی محبت دوسروں کے حقوق غصب کرنے یا ظلم پر آمادہ کرے تو یہ مذموم ہے۔ جیسا کہ ابن مفلحؒ کی احادیث میں واضح ہے کہ اپنی قوم سے محبت خودبخود عصبیت کے زمرے میں نہیں آتی۔

انسان کے طبعی جذبات اور جدید نیشنلزم

انسان کے فطری رجحانات جیسے قبیلے، زبان، اور علاقے سے وابستگی قدیم ہیں، لیکن جدید نیشنلزم ایک بالکل نیا تصور ہے جو انسان کی فطری تقسیمات کے برعکس ہے۔

  • ماڈرن نیشن: جدید ریاستیں بعض اوقات ایک ہی زبان، نسل، یا علاقے کے لوگوں کو مختلف قوموں میں بانٹ دیتی ہیں، جیسا کہ برصغیر کی تقسیم میں ہوا، اور بعض اوقات دور دراز علاقوں کے لوگوں کو ایک قوم میں جوڑ دیتی ہیں، جیسا کہ بھارت کی مثال سے واضح ہے۔
  • فطرت سے بے تعلقی: ماڈرن ریاست کے لیے قوم کا تصور مادی مفادات پر مبنی ہے، نہ کہ انسانی جذبات یا فطری تعلقات پر۔ اس تصور کے تحت طبعی رشتوں اور جذبوں کا قتل ہوتا ہے۔

ملت اور نیشنلزم کا فرق

  • ملت: اسلام کا تصور ملت ایک بلند اور مقدس وحدت کا تصور ہے، جس پر انسان اپنے طبعی جذبات قربان کر سکتا ہے۔ یہ دین سے پھوٹتا ہے اور فطری طور پر انسان میں موجود ہے، جیسا کہ اقبال نے فرمایا:

    ”بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا“

  • نیشنلزم: ماڈرن نیشنلزم مادی مفادات کی بنیاد پر قائم ایک وحدت ہے، جہاں طبعی جذبات جیسے نسل، زبان، اور ثقافت کی قربانی دی جاتی ہے لیکن کسی اعلیٰ دینی یا اخلاقی مقصد کے بغیر۔

نیشنلزم کی خامیاں

  • لچکدار وحدت: نیشنلزم کسی بھی وجہ سے وجود میں آ سکتا ہے اور ختم بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ کشمیر اور فلسطین کے معاملے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
  • مادی مفادات: اس تصور کے پیچھے صرف مادی فوائد کارفرما ہوتے ہیں، نہ کہ انسانیت کی بھلائی یا دین کا کوئی اعلیٰ مقصد۔

پاکستان کا نظریہ اور نیشنلزم

پاکستان کے قیام کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہے، جو ایک اٹوٹ اور دائمی رشتہ فراہم کرتا ہے۔

  • اسلامی وحدت: اس وحدت کی بنیاد اسلام ہے، جس کے تحت پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتون ہمیشہ بھائی رہتے ہیں۔
  • قوم پرستی کا چیلنج: قوم پرستی کے علمبرداروں کا تصور ایک خالی نیشن کا ہے، جو کسی بھی مضبوط بنیاد سے محروم ہے۔ جب مختلف اقوام کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نیشن ہیں، تو وہ سوال کرتے ہیں کہ نیشنلزم کا حوالہ کس چیز پر مبنی ہے؟

عصبیت، سیکولرزم، اور جدید چیلنجز

آج پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، جہاں عصبیت اور سیکولرزم کے ذریعے اسلامی وحدت کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

  • اندرونی خطرات: قومیت کی بنیاد پر مختلف گروہوں کو لڑانے کی کوششیں۔
  • بیرونی مداخلت: عالمی طاقتوں کی سازشیں، جو مسلم ممالک کو تقسیم کرنے کے لیے عصبیت کا استعمال کرتی ہیں۔

اسلام کا حل: دینِ توحید کی بنیاد پر اجتماعیت

  • اسلامی اجتماعیت: یہ وحدت انسان کے طبعی جذبات کا احترام کرتی ہے لیکن انہیں دین کے اعلیٰ مقاصد پر قربان کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
  • مستقبل کی ضرورت: پاکستان جیسے ممالک کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے استحکام کے لیے دینِ توحید کی بنیاد پر اپنی اجتماعیت کو مضبوط کریں تاکہ اندرونی و بیرونی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے