سوال
استاد کے روحانی والد کہلانے کا کیا مفہوم ہے اور اس کی شرعی دلیل کیا ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
استاد کو روحانی والد یا معلم والد کہنا اس لیے درست ہے کیونکہ وہ علم، تربیت اور ہدایت کے ذریعے طالب علم کی زندگی پر ایسا اثر ڈالتا ہے جو روحانی اور اخلاقی اعتبار سے اہم ہوتا ہے۔ اسی لیے شریعت میں استاد کی عظمت کو والد کی طرح تسلیم کیا گیا ہے۔
شرعی دلیل
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ، أُعَلِّمُكُمْ”
’’بلاشبہ میں تمہارے لیے والد کی مانند ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔‘‘
[سنن ابی داؤد: 8]
مفہوم کی وضاحت
◄ نبی اکرم ﷺ نے تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنی امت کے لیے روحانی والد کی حیثیت کو واضح کیا۔
◄ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے والد اپنے بچوں کی جسمانی، اخلاقی اور دنیاوی پرورش کرتا ہے، اسی طرح استاد ان کی علمی اور روحانی تربیت کرتا ہے۔
◄ لہٰذا، استاد کا احترام اور اس کی اہمیت دین اسلام میں والد کی طرح تسلیم کی گئی ہے۔
استاد کا مقام
◄ استاد کی ذمہ داری صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ اخلاقی تربیت اور صحیح رہنمائی بھی ہے۔
◄ نبی ﷺ نے جہاں والدین کی خدمت کا حکم دیا، وہیں علماء، اساتذہ اور معلمین کا ادب اور ان کی تعظیم بھی سکھائی ہے۔
خلاصہ
◄ استاد کو روحانی والد کہنا شرعاً درست ہے، کیونکہ وہ علم اور تربیت کے ذریعے روحانی اور اخلاقی نشوونما کا ذریعہ بنتا ہے۔
◄ نبی اکرم ﷺ نے خود کو والد کی طرح معلم قرار دیا، اس لیے استاد کی عظمت اور اس کا ادب دین اسلام کا اہم حصہ ہے۔