* سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت والے قصہ میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يا معشر المسلمين، من يعذرني من رجل قد بلغني أذاه فى أهل بيتي، فوالله ما علمت على أهلي إلا خيرًا.
”اے مسلمانوں کی جماعت! کون اس شخص سے میرا بدلہ لے گا جس کی طرف سے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچی ہے؟ اللہ کی قسم! میں اپنے گھر والوں کے بارے میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔“ (صحيح البخاري : 4850، صحيح مسلم : 2770)
* حصین بن سبرہ تابعی رحمہ اللہ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا :
ومن أهل بيته يا زيد؟ أليس نساؤه من أهل بيته؟
”اے زید! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل نہیں؟“
اس پر سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
نساؤه من أهل بيته.
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم : 2408)
* سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو:
فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلّم إلى على وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم أجْمَعينَ، فقال : ”اللَّهُمْ هولاء أهل بيتيي“ قالت أم سلمة : يا رسول الله، ما أنا من أهل البيت ؟ قال: ”إنك أهلي خير، وهؤلاء أهل بيتيي، اللَّهُمْ أهليي أحق“
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا۔ پھر فرمایا: میرے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں؟ فرمایا : آپ میرے گھر والی ہیں اور بھلائی والی ہیں، جب کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ اے اللہ! میرے گھر والے (اہل بیت ہونے کے) زیادہ حق دار ہیں۔“ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 416/2، و سندہ حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے، جب کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ کہا ہے۔
ایک روایت میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
قلت: يا رسول اللہ، ألست من أهلك؟ قال: ”بلٰى، فادخلي فى الكساء“، قالت : فدخلت فى الكساء بعد ما قضٰى دعائه لابن عمه علي وابنيه وابنتيه فاطمة رضى الله عنهم .
”میں نے عرض کیا: الله کے رسول ! کیا میں آپ کے اہل سے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، آپ بھی چادر میں داخل ہو جائیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچازاد سیدنا علی، اپنے نواسوں (سیدنا حسن و حسین) اور اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہم کے لیے دعا کر چکے تو میں بھی چادر میں داخل ہو گئی۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 298/6، وسندهٔ حسن)
ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت دو طرح کے ہیں؛ بزبانِ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت ہیں، جب کہ بزبانِ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت ہیں تو ان پر بھی درود پڑھنا مشروع ہے، جیساکہ حدیث میں ہے:
٭سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
انهم، قالوا: يا رسول الله، كيف نصلي عليك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قولوا اللهم صل على محمد و ازواجه و ذريته كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد و ازواجه وذريته كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد
”صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہو: اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر رحمت نازل کی، نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (الموطأ للإمام مالك:165/1؛ صحيح البخاري: 3369؛ صحيح مسلم : 407)