اذان دینے والے کے لیے اقامت کہنے کا مسنون طریقہ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1۔ كتاب الاذان۔صفحہ250

سوال:

ہم نے سنا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جو اذان دے، وہی تکبیر (اقامت) بھی کہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
(نیک محمد کھوسا، مانجھی پورہ)

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✔ جو شخص اذان دے، وہی اقامت کہے—یہ روایت سنن ابی داود
(حدیث 514)
اور جامع ترمذی
(حدیث 199)
میں موجود ہے، مگر یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں عبدالرحمٰن الافریقی نامی راوی ہے، جو ضعیف شمار ہوتا ہے۔
(ملاحظہ ہو: نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داود، ص 183)

دیگر شواہد بھی ضعیف ہیں:

◈ سنن ابی داود
(حدیث 512، 513)
◈ السنن الکبریٰ للبیہقی
(1/399)

امام بیہقی رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:

سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور خود ہی اقامت بھی کہی۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی، 1/399)

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس اثر کو مذکورہ روایت
(سنن ابی داود 514)
کا "شاہد” قرار دیا ہے، یعنی اس کی تائید میں پیش کیا ہے۔

نتیجہ:

✔ افضل اور بہتر یہ ہے کہ مؤذن ہی اقامت کہے۔
✔ لیکن اگر کسی وجہ سے کوئی دوسرا شخص اقامت کہہ لے تو بھی یہ جائز ہے۔

(شہادت، مئی 1999ء، اگست 2001ء)

واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1