اذان اور اقامت کے درمیان تثویب کے الفاظ
فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃ جلد 1 ص 168

سوال

اذان اور اقامت کے درمیان "الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ” کے الفاظ پکارنا، یعنی "الصلوة والسلام علیک یا حبیب اللہ”، کیا یہ جائز ہے؟ اور لغت و شرع میں تثویب کے کیا معنی ہیں؟

جواب

اذان اور اقامت کے درمیان ان الفاظ میں تثویب (اعلان) کرنا ناجائز اور بدعت ہے۔ اس عمل کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ تثویب لغت میں اعلان کرنے کو کہا جاتا ہے، اور شرعی اصطلاح میں اذان کے بعد نماز کے وقت کو دوبارہ پکارنا ہے، جیسے کہ صبح کی اذان میں "الصلوة خیر من النوم” کہنا۔

بدعت کا حکم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں اذان اور اقامت کے درمیان اس طرح کے الفاظ کہنا ثابت نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ نے اس عمل کو بدعت قرار دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے اذان کے بعد تثویب کی آواز سنی، تو فرمایا: "اس بدعتی کو مسجد سے نکال دو”۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی تثویب کی آواز سن کر فرمایا: "چلو اٹھو، ہم اس بدعتی کے پاس سے نکل چلیں”۔
(حاشیہ سنبھلی بر ہدایہ، ص 75، نمبر 13)

تثویب کی اقسام:

تثویب صبح کی اذان میں "الصلوة خیر من النوم” کہنا سنت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کے وقت ایسا کہا کرتے تھے۔ یہ اذان کا جزو ہے اور الگ نہیں۔

اس کے علاوہ ہر قسم کی تثویب، جیسے اذان اور اقامت کے درمیان "الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ” کہنا، بدعت ہے۔

خلاصہ:

➊ اذان اور اقامت کے درمیان "الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ” کہنا بدعت ہے اور شرعاً ناجائز ہے۔

➋ تثویب شرع میں صرف فجر کی اذان میں "الصلوة خیر من النوم” کہنا ثابت ہے، اس کے سوا باقی تثویب بدعت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے