اذان اور اقامت قبلہ رخ ہو کر کہنے کی کیا دلیل ہے؟
ماہنامہ السنہ جہلم

جواب: اذان اور اقامت قبلہ رخ ہو کر کہنا مستحب ہے ،
یہ مسلمانوں کا موروثی عمل ہے ۔
اس کے بارے میں دو احادیث آتی ہیں ،
لیکن دونوں ضعیف ہیں ۔ امام ابن المنذر رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:
وأجمعوا على أن من السنة أن تستقبل القبلة بالأذان
”اجماع ہے کہ اذان قبلہ رو ہو کر کہنا سنت ہے ۔“ [الإجماع ، ص 38]
حافظ نووی رحمہ اللہ (المجموع 103/3) اور علامہ عبد الغنی مقدسی رحمہ الله (المغنی: 1/ 309) نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ سلف کی ایک بڑی جماعت سے ثابت ہے کہ وہ رو بہ قبلہ ہو کر اذان کہنے کے قائل و فاعل تھے ۔
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ایک شخص نے رو بہ قبلہ ہو کر اذان کہی ۔ [مسند السراج: ٦١ ، وسنده صحيح]
تنبیه:
صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
ولو ترك الإستقبال جاز لحصول المقصود ويكره لمخالفته السنة
”اگر قبلہ رو نہ ہو ، تب بھی اذان جائز ہے ، کیوں کہ مقصود حاصل ہے ، البتہ مخالف سنت ہونے کی وجہ سے مکروہ ضرور ہے ۔“ [الهداية: ٨٦/١]
صاحب ہدایہ کی یہ بات اجتماع کی مخالفت کی بنا پر درست نہیں ۔ جس مسئلہ میں سلف خاموش ہوں ہمیں بھی خاموش رہنا چاہیے ، بلا وجہ اذان میں سمت قبلہ کو ترک کرنا جائز نہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: