تمہید
تحریر کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے جو مصنف کے نزدیک ایک نیم بزرگی کا عکاس ہے:
"عجیب زمانہ آ گیا ہے۔”
اس جملے کی تکرار، خاص طور پر اخلاقی زوال کی شکایت کے ساتھ، اکثر ان شخصیات سے جڑی ہوتی ہے جو خود کو ان خرابیوں سے بالاتر سمجھتی ہیں۔
اخلاقی زوال اور تربیتِ اولاد
آج کل ایک عجیب بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ اولاد کو روایتی اخلاقیات کے مطابق تربیت دینا بعض لوگوں کے نزدیک نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔
ایثار، درگزر اور مروت جیسے اوصاف جو پہلے نیکی کی علامت تھے، جدید دور میں کمزوری سمجھے جا رہے ہیں۔
بچے کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ کامیابی کے لیے دوسروں کو پیچھے چھوڑنا، بلکہ ان کی جگہ چھیننا ضروری ہے۔
ایسے رویے "مسابقتی” دنیا کے نئے اصول بن چکے ہیں۔
جدید اخلاقیات کی بنیاد
مصنف احمد جاوید صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی جڑیں نٹشے کے غیر متوازن خیالات میں ہیں۔
نٹشے نے اپنی کتاب "اخلاقیات کا نسب نامہ” میں اخلاقیات کو "آقائی” اور "غلام” دو اقسام میں تقسیم کیا:
- آقائی اخلاقیات: طاقت اور خود مختاری کی علامت۔ آقا ہر کام اپنی مرضی سے کرتے ہیں، کسی بھی حد یا اصول کو خاطر میں نہیں لاتے۔
- غلام اخلاقیات: کمزوری اور خوف سے جنم لیتی ہیں۔ یہ وہ اخلاقیات ہیں جو غلام اپنے آقاؤں کی مرضی کے مطابق اپناتے ہیں۔
نٹشے کے مطابق، مذہبی اخلاقیات غلاموں کی اخلاقیات کی ایک شکل ہیں، جو طاقتوروں کے خلاف کمزوروں کی انتقامی سوچ کی پیداوار ہیں۔
مذہبی اخلاقیات اور اسلام
نٹشے کی تنقید زیادہ تر مسیحی اور یہودی اخلاقیات پر مرکوز ہے۔
لیکن اسلام، روایتی مذاہب سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔
- اسلام نے قصاص اور انصاف کے اصولوں کو سماجی توازن کی بنیاد بنایا۔
- طاقت اور رحم دلی کے امتزاج پر زور دیا، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں نظر آتا ہے، جہاں حکمرانی اور فقیری دونوں کا عملی نمونہ موجود ہے۔
- اسلامی تعلیمات میں طاقت بذات خود نہ خیر ہے نہ شر۔ یہ نیت اور استعمال پر منحصر ہے۔
جدید دنیا اور ہماری اخلاقیات
مصنف کا مؤقف ہے کہ ہماری اخلاقی تربیت پر جدید مغربی دنیا کے اثرات زیادہ ہو گئے ہیں، اور اپنی روایات کا حصہ کم رہ گیا ہے۔
مغربی تہذیب کے ادارے، چاہے وہ تعلیمی ہوں یا سیاسی، اپنے فلسفے کے جراثیم ہمارے معاشروں میں منتقل کر رہے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ایثار اور قربانی جیسی اقدار کو بزدلی سمجھا جانے لگا ہے۔
اسلامی فلسفے کا حل
اسلام کا متوازن اخلاقی فلسفہ ہمیں انتہا پسندی سے بچاتا ہے۔
- طاقت کا استعمال انصاف کے ساتھ اور رحم دلی کے تحت ہونا چاہئے۔
- نبی کریم ﷺ کی حدیث "طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے”
(صحیح مسلم: حدیث 2664)
اسلام کے طاقت اور خیر کے تصور کو واضح کرتی ہے۔ - عقیدہ آخرت پر یقین، نیت کو عمل کے ساتھ جوڑتا ہے اور خیر و شر کا تعین کرتا ہے۔
معاشرتی اصلاح کی ضرورت
مصنف کا کہنا ہے کہ اگر اخلاقی زوال کی رفتار یہی رہی تو ہماری آئندہ نسلیں ایسی معاشرت تخلیق کریں گی جو حیوانی سطح سے بھی بدتر ہو گی۔
علماء، فلاسفہ اور مصلحین کو عوام کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے تاکہ جدید دنیا کی منفی اخلاقیات کو روکنے کا حل نکالا جا سکے۔