جدیدیت پسندوں کی روش
آج کے جدیدیت پسند مغربی اثرات کے تحت اسلام کے اُن احکام کو نشانہ بناتے ہیں جو مغرب کے لیے قابل اعتراض سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد اسلامی احکام کو معطل اور ان کی اہمیت کو کم کرنا ہے، چاہے وہ مستشرقین کی افکار کی توثیق ہو یا اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایسے افراد کو پیدا کیا جو ان باطل افکار کا رد کرتے ہیں۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی میں اسلامی فکر کے تحفظ کے لیے نمایاں طور پر سامنے آئے اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کی تشریح کی۔
قراءت کے مسئلے پر سوال اور اشکال
ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ قرآن بعینہٖ اسی حالت میں محفوظ ہے جس میں نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا، لیکن اس کے باوجود اختلاف قراءت کیوں موجود ہے؟ مختلف معتبر کتب میں قراءت کے اختلافات درج ہیں، جن میں اعراب اور بعض اوقات الفاظ میں فرق پایا جاتا ہے۔ اگر قرآن میں تبدیلی ناممکن ہے تو پھر اختلاف قراءت کی بات کیسے درست ہو سکتی ہے؟
قراءت کی حقیقت اور اس کی وضاحت
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید بغیر کسی تبدیلی کے آج بھی محفوظ ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن مختلف قراءتوں کے ساتھ نبی ﷺ سے مروی ہے۔ قرآن کی اشاعت ابتدا میں زبانی تھی، اور صحابہ کرامؓ نے اسے نبی اکرم ﷺ سے سن کر یاد کیا اور پھر اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔ رسم الخط کے بغیر اعراب اور نقاط کے ابتدائی زمانے میں مختلف تلفظات کے امکانات موجود تھے، لیکن اس کا اصل معیار وہ زبانی روایت تھی جو نبی ﷺ تک پہنچتی تھی۔
رسم الخط اور اعراب کی تاریخ
- قرآن ابتدا میں بغیر اعراب اور نقاط کے لکھا جاتا تھا۔
- اعراب لگانے کا آغاز 45ھ میں بصرہ کے گورنر زیادؒ نے کیا، جب ابوالاسود دؤلیؒ نے اعراب کے لیے علامات تجویز کیں۔
- 65ھ میں حجاج بن یوسفؒ نے مزید بہتری لاتے ہوئے نقاط اور زیر، زبر، پیش کا اضافہ کروایا۔ یہ سب اقدامات اس لیے کیے گئے تاکہ غیر اہل زبان قرآن کی تلاوت میں غلطی نہ کریں۔
قراءت کی توثیق کے ذرائع
- قرآن کی مختلف قراءتوں کو زبانی روایت کے ذریعے محفوظ رکھا گیا۔
- صحابہ کرامؓ اور ان کے شاگرد تابعین نے قرآن کی اصل قراءت کو آگے منتقل کیا۔
- حضرت عثمانؓ نے قرآن کے مصاحف تیار کروا کر مختلف مراکز میں بھیجے، جن کے ساتھ ماہر قاری بھی مقرر کیے گئے تاکہ درست قراءت کی تعلیم دی جا سکے۔
قراء سبعہ اور ان کی قراءتیں
قرآن کی قراءت کے معتبر ائمہ درج ذیل ہیں:
- نافع بن عبدالرحمنؒ (مدینہ)
- عبداللہ بن کثیرؒ (مکہ)
- ابوعمرو بن العلاءؒ (بصرہ)
- عبداللہ بن عامرؒ (شام)
- حمزہ بن حبیبؒ (کوفہ)
- عاصم بن ابی النجودؒ (کوفہ)
- علی الکسائیؒ (کوفہ)
ان ائمہ کی قراءتیں متواتر ہیں اور ان کی اسناد صحابہ کرامؓ اور نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہیں۔
قراءت کے اختلافات اور ان کی نوعیت
قرآن کی مختلف قراءتوں میں اختلاف تضاد پیدا نہیں کرتے بلکہ معنی میں وسعت اور گہرائی کا اضافہ کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
- "مٰلِكِ یَوْمِ الدِّينِ” اور "مَلِكِ یَوْمِ الدِّينِ”: دونوں قراءتیں اللہ کی صفت کو بیان کرتی ہیں، ایک "مالک” کے طور پر اور دوسری "بادشاہ” کے طور پر۔
- آیت وضو میں "أَرْجُلَكُمْ” (پاؤں دھونا) اور "أَرْجُلِكُمْ” (پاؤں پر مسح کرنا): یہ قراءتیں مختلف حالتوں کے احکام کو واضح کرتی ہیں۔
قراءت کی قبولیت کی شرائط
- مصحف عثمانی کے رسم الخط سے مطابقت: قراءت مصحف کے رسم الخط میں موجود ہونی چاہیے۔
- لغت اور قواعد زبان سے مطابقت: قراءت زبان کے قواعد کے مطابق ہو۔
- صحیح سند کا ہونا: قراءت کی سند معتبر ہو اور نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہو۔
خلاصہ
قرآن مجید کی قراءت کا اختلاف کوئی تضاد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانی اور حکمت کا مظہر ہے۔ ان قراءتوں کی بنیاد مستند اسناد اور زبانی روایت پر ہے، جو نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہیں۔ اختلافات میں گہرائی اور احکام کی وسعت پوشیدہ ہے، جس سے قرآن کے فہم میں اضافہ ہوتا ہے۔