ابن رشد فلسفہ مذہب اور درباری سازشیں

ابن رشد: ابتدائی حالات

ابوالولید محمد ابن احمد ابن رشد 1128ء میں قرطبہ، مسلم اسپین میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے دور کے مشہور مالکی فقہاء میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی اہم فقہی کتاب "بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد” فقہ، اصولِ فقہ اور مختلف فقہی مسالک پر مستند مانی جاتی ہے۔

فلسفہ میں خدمات

ابن رشد کو ارسطو کی کتب کے بہترین شارحین میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب "تہافت التہافت” امام غزالی کی "تہافت الفلاسفہ” کے جواب میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں ابن رشد نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ابن سینا اور الفارابی کے نظریات ارسطو کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے، لہٰذا امام غزالی کا ان نظریات کے رد میں دیا گیا موقف درست نہیں تھا۔

فلسفے اور مذہب میں مطابقت

ابن رشد ان فلاسفہ میں شامل تھے جو فلسفہ اور مذہب میں ہم آہنگی کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک دونوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی حقیقتِ اعلیٰ یعنی اللہ کی معرفت۔ انہوں نے اپنی کتاب "فصل المقال فیما بین الحکمۃ والشریعۃ من الاتصال” میں لکھا:

"فلسفہ کا مقصد موجودات اور ان کے متعلقات پر غور کرنا ہے تاکہ صانع یعنی اللہ کی معرفت حاصل ہو۔”
(ماخذ: علامہ ابن رشد، اردو ترجمہ: عبید اللہ قدسی، اقبال ریویو، جنوری 1968ء، ص 12)

مذہب اسلام اور علمی تفکر

ابن رشد کے مطابق، قرآن کریم نے بھی انسانوں کو مظاہرِ قدرت پر غور و فکر کی دعوت دی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور جو کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے، اس پر غور نہیں کیا؟
(سورۃ الاعراف: 185)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے موجوداتِ عالم پر غور کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ابن رشد کے نزدیک اس غور و فکر کا اعلیٰ ذریعہ عقل و منطق ہے۔ انہوں نے کہا:

"شریعت نے موجودات پر عقل کے ذریعے غور کرنا واجب کیا ہے، اور قیاس کا بہترین طریقہ ’برہان‘ ہے۔”
(ماخذ: ایضاً، ص 13)

غزالی اور ابن رشد کے اختلافات

امام غزالی نے اپنی کتاب "تہافت الفلاسفہ” میں فلسفے کے بیس مابعد الطبیعاتی مسائل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے چار اہم مسائل مذہبی تعلیمات سے براہِ راست متصادم تھے:

  1. قدامتِ عالم
  2. معجزات کا انکار
  3. حشرِ اجساد
  4. روح کی انفرادی بقا کا انکار

ابن رشد نے ان مسائل پر ارسطو کی پیروی کرتے ہوئے مذہب اور فلسفہ میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کا موقف تھا کہ فلسفیانہ نتائج ہمیشہ حقائق پر مبنی ہوتے ہیں، اور مذہب کی وضاحت بھی برہان کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔
(ماخذ: ہسٹری آف فلاسفی ان اسلام، ٹی۔ جے۔ ڈی بوئر، ترجمہ: ایڈروڈ آر جونس، لندن 1965، ص 199)

کتابوں کا جلایا جانا

ابن رشد نے اشبیلیہ میں قاضی کے طور پر خدمات انجام دیں اور خلیفہ الموحدی ابی یعقوب یوسف کے کہنے پر ارسطو کی کتب کی تشریح لکھی۔ تاہم، خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور کے دور میں سیاسی سازشوں اور درباری حاسدین کی وجہ سے ان پر کفر کا الزام لگایا گیا۔ نتیجتاً، انہیں الیسانہ شہر میں جلاوطن کیا گیا، اور ان کی فلسفیانہ تصانیف کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ بعد میں خلیفہ نے اپنی غلطی تسلیم کی اور ابن رشد کو دوبارہ دربار میں شامل کر لیا، مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ابن رشد اور خلیفہ دونوں کا انتقال 1198ء میں مراکش میں ہوا۔

ابن رشد پر الزامات کی حقیقت

سیکولر مفکرین، جیسے سبط حسن، نے ابن رشد کی تصانیف جلانے کا الزام مذہبی طبقے پر لگایا، مگر حقائق یہ بتاتے ہیں کہ یہ سازش درباری حاسدین کی جانب سے کی گئی تھی۔ عبدالواحد المراکشی، جو ابن رشد کے ہم عصر تھے، اپنی کتاب "الموجب فی تلخیص الاخبار المغرب” میں اس واقعے کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں:

"ابن رشد کے مخالفین نے ان کے اقتباسات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر خلیفہ کے سامنے پیش کیا، جس سے خلیفہ کو ان کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔”
(ماخذ: الموجب، صفحہ 150-151، سن 1224)

خلاصہ

ابن رشد ایک عظیم فلسفی، فقیہ اور شارح تھے جنہوں نے فلسفہ اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نظریات پر تنقید ضرور ہوئی، مگر انہیں کبھی کافر یا ملحد قرار نہیں دیا گیا۔ ان کی تصانیف کا جلایا جانا مذہبی مسئلے سے زیادہ درباری سازشوں کا نتیجہ تھا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے