374۔ ابلیس کیسے آگ سے ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے اسے ہاتھ سے پکڑا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ جلا نہیں ؟
جواب :
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور وہ آپ کے پیچھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی تو قراءت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملتبس ہونے گی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لو رأيتموني وإبليس فأهويت بيدي فما زلت أخنقه حتى وجدت برد لعابه بين أصبعي هاتين»
”کاش تم مجھے اور ابلیس کو دیکھتے، میں نے اسے اپنے ہاتھ سے گرایا، پھر میں اس کا گلہ گھوٹنے لگا، یہاں تک کہ میں نے اس کے لعاب کی ٹھنڈک اپنی ان دو انگلیوں کے درمیان پالی۔“ [حسن. مسند أحمد 83/3 كنز العمال، رقم الحديث 1285 الدر المنثور 313/5 تفسير ابن كثير 62/7 تفسير القرطبي 64/1]
پس اس کے لعاب کی ٹھنڈک اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے ناری عمر سے نکل گیا تھا۔ اگر ابلیس اپنے ناری عصر سے تھول نہ کرتا تو وہ آگ کے شعلے کا محتاج نہ ہوتا۔