ائمہ کرام کو مساجد میں مقرر کرنا درست ہے
وعن أبى هريرة رضى الله عنه ، قال : رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (إنما جعل الإمام ليؤتم به ، فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا ، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”بے شک امام کو اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ اللہ اکبر کہتا ہے تو تم اللہ اکبر کہو ، اور جب وہ رکوع کرتا ہے تو تم بھی رکوع کرو جب وہ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَةَ کہتا ہے تو تم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہو جب وہ سجدہ کرتا ہے تو تم سجدہ کرو ، جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو ۔“ [بخاري]
تحقیق و تخریج : بخاری : 734 ، مسلم : 417
فوائد :
➊ ائمہ کرام کو مساجد میں مقرر کرنا درست ہے ۔ امام کی اقتداء کرنا فرض ہے جب امام تکبیر کہے تو بعد میں مقتدی اللہ اکبر کہے اور جب امام رکوع و سجود میں چلا جائے تو پھر مقتدی رکوع و سجود میں جائے امام سے پہلے جھکنا یا امام کے اللہ اکبر کہنے کے بعد کافی دیر کھڑے رہنا پھر اللہ اکبر کہنا یہ دونوں طرح درست نہیں ہے ۔
➋ مسابقت تو بالکل جائز نہیں مراد امام سے ہر عمل نماز میں پہلے کرنا ۔ موافقت کی گنجائش ہے کبھی کبھار ہو جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن معمول بنانے سے گریز کرنا چاہیے مراد جب امام سجدہ کرے ساتھ سجدہ کرنا وغیرہ متابعت کو ہمیشہ اختیار کرنا چاہیے مراد اللہ اکبر کہے تب مقتدی اللہ اکبر کہے جب امام رکوع میں چلا جائے بعد میں مقتدی رکوع میں جائے وغیرہ ۔
➌ امام نماز بیٹھ کر پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں ۔
➍ اس حدیث میں جو آیا ہے کہ جب امام سمع الله لمن حمده کہے تم ربنا ولك الحمد كہو ربنا ولك الحمد یہ ربنا لك الحمد ، یعنی بغیر ”واؤ“ کے بھی پڑھنا درست ہے ۔
➎ امام کی اقتداء اس کے عوامل جہریہ میں ہے نہ کہ عوامل مخفیہ میں جیسے نماز میں تمام ادعیہ کا پڑھنا اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے پیچھے دعائیں پڑھے ۔ رکوع و سجود اور ان کے مابین دعاؤں کے پڑھنے میں کوئی قید نہیں ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے پیچھے پڑھے اپنی مرضی سے پڑھی جا سکتی ہیں ۔ اسی طرح نماز کی دیگر دعائیں ہیں البتہ امام قرآت کر رہا ہو تو سورۃ الفاتحہ کو مقتدی پیچھے پیچھے پڑھے باقی قرأت قرآن خاموشی سے سنے امام آمین کہے تو مقتدی آمین کہے امام اللہ اکبر کہے تو مقتدی اللہ اکبر کہے امام رکوع کرے تو مقتدی رکوع کرے امام سجدے کرے تو مقتدی بھی سجدے کرے امام سجدہ سہو کرے تو مقتدی بھی سجدہ سہو کرے امام قنوت نازلہ کرے تو مقتدی بھی قنوت نازلہ کرے امام سلام پھیرے مقتدی بھی سلام پھیرے الغرض جتنے بھی عوامل ظاہریہ ہیں امام کی آواز سن کر اور اس کو دیکھ کر ادا کرنے چاہئیں ۔ جو عوامل مخفیہ ہیں ان میں نمازی مقتدی اپنا انداز اپناتے ہوئے اور ساتھ ساتھ امام کے وقفوں کو سامنے رکھتے ہوئے ادا کرے گا ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: