بعض علماء کا یہ مؤقف ہے کہ آنکھ میں دوا یا قطرے ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور انہوں نے اس کے لیے مختلف دلائل پیش کیے ہیں۔ ان دلائل کو درج ذیل نکات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
قرآن مجید سے استدلال
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ
(البقرة: 187)
ترجمہ: "اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے فجر کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے واضح ہو جائے، پھر روزہ رات تک پورا کرو۔”
بعض علماء کے نزدیک یہ آیت عام ہے اور ہر اس چیز کو شامل کرتی ہے جو جسم میں داخل ہو اور اس کا اثر محسوس ہو، خواہ وہ کھانے پینے کے ذریعے ہو یا کسی اور ذریعے سے، کیونکہ اس سے روزہ کا بنیادی مقصد متاثر ہوتا ہے۔
حدیث سے استدلال
الف) حدیثِ لقیط بن صبرہؓ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"وَبَالِغْ فِي الاِسْتِنْشَاقِ إِلا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا”
(سنن أبي داود: 2366، سنن الترمذي: 788، سنن النسائي: 87)
ترجمہ: "اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، مگر جب تم روزے سے ہو تو مبالغہ نہ کرو۔”
اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ چونکہ پانی ناک سے حلق تک پہنچ سکتا ہے، اس لیے روزے دار کو اس سے روکا گیا۔ اسی قیاس پر اگر آنکھ میں دوا ڈالنے سے وہ حلق میں محسوس ہو تو وہ بھی روزہ توڑ دے گی۔
ب) حدیثِ ابن عباسؓ
عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے:
"الصوم مما دخل وليس مما خرج”
(رواه البيهقي في السنن الكبرى: 4/261)
ترجمہ: "روزہ ان چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو جسم کے اندر داخل ہوں، نہ کہ ان چیزوں سے جو خارج ہوں۔”
اس روایت کی بنیاد پر اگر آنکھ میں ڈالے گئے قطرے جسم میں داخل ہو کر حلق میں محسوس ہوں تو یہ روزہ توڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔
فقہاء کی آراء اور اجماعِ تابعین و تبع تابعین
الف) امام احمد بن حنبلؒ کا مؤقف
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
"إذا وجد طعم الكحل في حلقه، فالصيام قد انتقض”
(المغني لابن قدامة: 3/126)
ترجمہ: "اگر سرمہ یا دوا کا ذائقہ حلق میں محسوس ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔”
امام احمد بن حنبلؒ کے مطابق، اگر آنکھ میں ڈالی گئی دوا حلق تک محسوس ہو، تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔
ب) امام ابن تیمیہؒ کی رائے
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
"وأما التقطير في العين، فمبني على النزاع في السعوط والتقطير في الأنف، فمن رأى أن ذلك يفطر إذا وصل إلى الحلق يفطر بذلك أيضًا”
(مجموع الفتاوى: 25/233)
ترجمہ: "رہا آنکھ میں دوا ڈالنا، تو یہ اسی بنیاد پر ہے جس پر ناک میں دوا ڈالنے کا مسئلہ مبنی ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دوا حلق تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، وہ اس میں بھی یہی فتویٰ دیں گے۔”
ج) متأخرین فقہاء کا مؤقف
فقہ حنبلی، بعض احناف اور شوافع کے علماء کا مؤقف بھی یہی ہے کہ اگر آنکھ میں دوا ڈالنے سے اس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہو تو روزہ فاسد ہو جائے گا، کیونکہ یہ جسم کے اندرونی حصے میں داخل ہو رہی ہے۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:
"إذا وصل الدواء إلى الحلق عن طريق العين، فالصوم قد يُفسد”
(حاشیہ رد المحتار: 2/395)
ترجمہ: "اگر دوا آنکھ سے داخل ہو کر حلق میں محسوس ہو تو روزہ فاسد ہو سکتا ہے۔”
نتیجہ
روزہ ٹوٹنے کے قائل علماء کی بنیادی دلائل درج ذیل ہیں:
◈ قیاس: آنکھ کے ذریعے داخل ہونے والی دوا اگر حلق میں محسوس ہو تو وہ کھانے پینے کے مشابہ ہو جاتی ہے، اس لیے روزہ توڑ دے گی۔
◈ حدیثِ لقیط بن صبرہؓ: جس میں ناک میں پانی چڑھانے سے روکا گیا، اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔
◈ ابن عباسؓ کی روایت: جسم میں داخل ہونے والی چیز روزہ توڑ دیتی ہے۔
◈ فقہاء کا اتفاق: امام احمد بن حنبل، ابن تیمیہ اور دیگر فقہاء کے مطابق، اگر دوا کا ذائقہ حلق میں محسوس ہو تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔
تنبیہ
بعض دیگر فقہاء اس مؤقف سے اختلاف بھی رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیونکہ آنکھ کا راستہ معدے تک براہِ راست نہیں جاتا۔ لہذا، اس مسئلے میں مختلف آراء موجود ہیں اور احتیاط کے تقاضے کے مطابق مفتیانِ کرام سے رجوع کرنا مناسب ہوگا۔