آلات تصویر کی خرید و فروخت
اس میں تفصیل ہے۔ سٹوڈیو میں جائز اور نا جائز دونوں طرح کی تصویریں بنائی جاتی ہیں، اگر اس میں جائز اشیا کی تصویریں اتاری جائیں، جیسے: گاڑیاں، جہاز اور پہاڑ وغیرہ، جن میں روح نہیں ہوتی تو ایسے آلات تصویر بیچنے میں کوئی حرج نہیں، ان سے بے جان اشیا کی تصویر بنائی جا سکتی ہے اور انسان کو بھی اس کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔
رہا سوال ذی روح اشیا کی تصویر کشی کا، مثلا: انسانوں کی تصویریں، جانوروں کی تصویریں اور پرندوں کی تصویریں تو یہ ضرورت کے بغیر جائز نہیں، جس طرح ایسی چیز کی تصویر بنانا جس کے لیے لوگ مجبور ہوں، جیسے شہریت کی شناخت کے لیے جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے، جسے عرف عام میں برتھ سرٹیفکیٹ یا شناختی کارڈ کہا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح پاسپورٹ اور تعلیمی اسناد کا معاملہ ہے جو تصویر کے بغیر نہیں ملتے، ایسے ہی مجرموں کی تصویر بنانا تاکہ ان کی شناخت ہو اور ان کے شر سے بچا جا سکے، اس طرح اس کے ساتھ ملتی جلتی صورتوں میں جو ضرورت کا تقاضا ہو، تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اس کی دلیل قرآن کریم میں یہ آیت مبارکہ ہے۔
«وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ» [الأنعام: 119]
”حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ۔“
مقصد یہ ہے کہ انہیں (آلات تصویر) صرف جائز چیز کے لیے استعال کیا جائے، اگر اسے لوگوں کو بیچ دیا جائے تو اس کی بیع میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ اچھی اور بری دونوں چیزوں میں استعمال ہوتا ہے، جس طرح تلوار یا چھری اور ان کے ساتھ ملتی جلتی اشیا کی بیع کرنا، جو اچھائی اور برائی دونوں میں استعمال ہو سکتی ہیں، جائز ہے، تاہم گناہ اس کے سر ہوگا جو انہیں برائی میں استعمال کرے گا، لیکن جس کو علم ہو کہ چھری یا تلوار یا ان جیسی اشیا کا خریدار انہیں برائی میں استعمال کرے گا تو اس کے لیے اس شخص کو یہ اشیا بیچنا حرام ہوگا۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 81/19]
اس میں تفصیل ہے۔ سٹوڈیو میں جائز اور نا جائز دونوں طرح کی تصویریں بنائی جاتی ہیں، اگر اس میں جائز اشیا کی تصویریں اتاری جائیں، جیسے: گاڑیاں، جہاز اور پہاڑ وغیرہ، جن میں روح نہیں ہوتی تو ایسے آلات تصویر بیچنے میں کوئی حرج نہیں، ان سے بے جان اشیا کی تصویر بنائی جا سکتی ہے اور انسان کو بھی اس کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔
رہا سوال ذی روح اشیا کی تصویر کشی کا، مثلا: انسانوں کی تصویریں، جانوروں کی تصویریں اور پرندوں کی تصویریں تو یہ ضرورت کے بغیر جائز نہیں، جس طرح ایسی چیز کی تصویر بنانا جس کے لیے لوگ مجبور ہوں، جیسے شہریت کی شناخت کے لیے جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے، جسے عرف عام میں برتھ سرٹیفکیٹ یا شناختی کارڈ کہا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح پاسپورٹ اور تعلیمی اسناد کا معاملہ ہے جو تصویر کے بغیر نہیں ملتے، ایسے ہی مجرموں کی تصویر بنانا تاکہ ان کی شناخت ہو اور ان کے شر سے بچا جا سکے، اس طرح اس کے ساتھ ملتی جلتی صورتوں میں جو ضرورت کا تقاضا ہو، تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اس کی دلیل قرآن کریم میں یہ آیت مبارکہ ہے۔
«وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ» [الأنعام: 119]
”حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ۔“
مقصد یہ ہے کہ انہیں (آلات تصویر) صرف جائز چیز کے لیے استعال کیا جائے، اگر اسے لوگوں کو بیچ دیا جائے تو اس کی بیع میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ اچھی اور بری دونوں چیزوں میں استعمال ہوتا ہے، جس طرح تلوار یا چھری اور ان کے ساتھ ملتی جلتی اشیا کی بیع کرنا، جو اچھائی اور برائی دونوں میں استعمال ہو سکتی ہیں، جائز ہے، تاہم گناہ اس کے سر ہوگا جو انہیں برائی میں استعمال کرے گا، لیکن جس کو علم ہو کہ چھری یا تلوار یا ان جیسی اشیا کا خریدار انہیں برائی میں استعمال کرے گا تو اس کے لیے اس شخص کو یہ اشیا بیچنا حرام ہوگا۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 81/19]