آدھے منافع کی شرط پر قرض دینے اور مضاربت کا فرق
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

آدھا منافع لینے کی شرط پر مال قرض دینے کا حکم
کوئی آدمی کسی سے آدھے منافع کی شرط پر تجارت کی غرض سے مال ادھار لے، یہ حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ علما کے ہاں یہ قاعدہ ہے کہ ہر وہ قرض جو فائدہ لائے وہ سود ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ بندہ کہے: یہ مال لو، اس کے ساتھ تجارت کرو، اور آدھا منافع تیرا۔ اگر کہنے والا کہے۔ اس میں اور اس میں کیا فرق ہے؟
اس نے اس کو دس ہزار روپے بطور قرض دیے اور کہا: یہ دس ہزار قرض اس شرط پر ہے کہ آدھا منافع میرا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اس قرض نے فائدہ دیا ہے، لیکن اگر کہے: یہ دس ہزار لو، ان کے ساتھ تجارت کرو اور آدھا نفع تیرا۔ یہ حلال ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرض میں اگر نقصان ہو جائے تو وہ مقروض کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ اس نے دس ہزار قرض لیے اور اس کے ذمے دس ہزار ثابت اور واجب الادا ہو گئے، لیکن مضاربت کے مسئلے میں جب کہے: یہ دس ہزار لے، ان کے ساتھ تجارت کر اور آدھا نفع تمھارا، اگر اس کو مال میں خسارہ ہو جائے یا مال تلف ہو جائے تو یہ اس مضارب (رب المال) کا نقصان ہوگا جس نے مال دیا تھا۔
پہلی صورت میں اگر نقصان ہو جائے تو اس نقصان کا ذمے دار قرض لینے والا ہی ہوگا اور اسے دس ہزار ادا کرنے ہوں گے، جبکہ مضاربت کی صورت میں اگر نقصان ہو جائے یا مال تلف ہو جائے تو یہ نقصان مال کے مالک ہی کو برداشت کرنا پڑے گا، (جبکہ کام کرنے والے کی محنت ضائع ہو گی) یہ ہے ان دونوں کے درمیان واضح فرق۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 9/169]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1