آخری تشہد کی فرضیت اور افضلیت
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كنا نقول قبل أن يفرض علينا التشهد ، السلام على الله ، السلام على جبرئيل و ميكائيل
[صحيح: تمام المنة: ص / 171 ، إرواء الغليل: 319 ، دارقطني: 350/1 ، بيهقي: 138/2]
”ہم تشہد فرض کیے جانے سے پہلے یہ کہا کرتے تھے۔ السلام على الله ، السلام على جبرئيل و ميكائيل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما کر حکم دیا کہ یہ کہا کرو : التحيات لله …. الخ
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قعدتم فى كل ركعتين فقولوا: التحيات لله…الخ
[صحيح: صحيح نسائي: 1114 ، كتاب التطبيق: باب كيف التشهد الأول ، نسائى: 1164 ، أحمد: 437/1 ، ابن خزيمة: 720]
”جب تم ہر دو رکعتوں میں بیٹھو تو کہو : التحيات لله…. الخ “
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تشہد سکھایا:
وأمره أن يعلمه الناس
[أحمد: 382/1]
”اور انہیں حکم دیا کہ یہ تشہد لوگوں کو بھی سکھائیں ۔“
ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری تشہد واجب ہے۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار: 115/2 ، السيل الجرار: 21931 ، الروضة الندية: 248/1 ، المحلى بالآثار: 300/2 ، سبل السلام: 443/1]
(احمدؒ ، شافعیؒ) آخری تشہد واجب ہے۔
(مالکؒ) آخری تشہد کے لیے سلام تک بیٹھنا اور اس میں ذکر الٰہی کرنا فرض ہے جبکہ تشہد فرض نہیں ہے ۔
[بداية المجتهد: 125/1 ، المغني: 532/1 ، كشاف القناع: 45331 ، فتح القدير مع العناية: 113/1 ، بدائع الصنائع: 113/1 ، تبيين الحقائق: 104/1 ، الشرح الكبير: 240/1 ، القوانين الفقهية: ص/ 64 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 580/2]
(راجح) تشہد اور اس کے لیے بیٹھنا دونوں ہی فرض ہیں۔
[المحلى بالآثار: 300/2]
تشہد کے الفاظ
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں :
التحيات الله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبى و رحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصلحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله
[بخارى: 831 ، كتاب الأذان: باب التشهد فى الآخرة ، مسلم: 402 ، أبو داود: 968 ، ترمذي: 289 ، نسائي: 239/2 ، ابن ماجة: 899 ، أحمد: 382/1 ، دارمي: 308/1 ، بيهقي: 138/2 ، دارقطني: 350/1 ، أبو عوانة: 299/2]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس طرح تشہد سکھاتے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھا رہے ہوں اور فرماتے:
التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله السلام عليك أيها النبى ورحمة الله و بركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمد رسول الله
[مسلم: 403 ، كتاب الصلاة: باب التشهد فى الصلاة ، أبو داود: 974 ، ترمذي: 290 ، نسائي: 242/2 ، ابن ماجة: 900 ، أحمد: 292/1 ، دارقطني: 350/1 ، يهقي: 140/2]
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو یہ تشہد سکھایا کرتے تھے :
التحيات لله الزاكيات لله الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله
[ صحيح: نصب الراية: 422/1 ، موطا: 90/1 ، كتاب النداء للصلاة: باب التشهد فى الصلاة ، حاكم: 266/1 ، بيهقى: 142/2]
➍ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں :
التحيات الطيبات الصلوات الله ……
[مسلم: 404 ، كتاب الصلاة: باب التشهد فى الصلاة]
(باقی آخر تک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کی طرح ہے) ۔
◈ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کون سا تشہد افضل ہے
(احمدؒ ، ابوحنیفہؒ، جمہور) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تشہد افضل.
(شافعیؒ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا تشہد افضل ہے۔
(مالکؒ) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا تشہد افضل ہے۔
[شرح المهذب: 343/3 ، الأم: 228/1 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء: 126/2 ، المبسوط: 27/1 ، كشاف القناع: 357/1 ، سبل السلام: 267/1]
(نوویؒ) ان سب (تشہدوں) کے جواز پر علماء کا اتفاق ہے۔
[شرح مسلم: 354/2]
(راجح) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تشہد افضل ہے۔ (کیونکہ یہ صحیحین کی روایت سے ثابت ہے اور اس کے راوی ایسے ثقہ ہیں کہ جنہوں نے اس کے الفاظ میں اختلاف نہیں کیا)۔
(ترمذیؒ) تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی سب سے زیادہ صحیح حدیث حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[سنن ترمذي: 289]
(مسلمؒ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد پر لوگوں کا اجماع ہے ۔
[سبل السلام: 443/1]
(بزارؒ) تشہد میں میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح حدیث حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[تحفة الأحوذى: 185/2]
(ابن حجرؒ) انہوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کی افضلیت کے مختلف اسباب بیان کیے ہیں۔
[فتح البارى: 368/2]
(صدیق حسن خانؒ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تشہد سب سے زیادہ صحیح ہے۔
[الروضة الندية: 249/1]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تمام احادیث سے زیادہ راجح ہے۔
[تحفة الأحوذى: 186/2]