الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ . فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ . فَقَالَ: رَجُلٌ لَمْ أَشْعُرْ ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ . اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ . وَجَاءَ آخَرُ ، فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ ، فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ . فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إلَّا قَالَ: افْعَلْ وَلَا حَرَجَ } .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں کھڑے ہوئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے لگے: ایک شخص نے کہا: مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نے قربانی سے پہلے ہی سر منڈوا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ پھر دوسرا شخص آیا تو اس نے کہا: مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نے رمی سے پہلے قربانی کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں ہے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی چیز کے آگے پیچھے ہو جانے کے بارے میں جو بھی سوال کیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے، اب کر لو ۔
شرح المفردات:
لم أشعر: مجھے پتہ نہ تھا، معلوم نہ تھا، شعور نہ تھا۔ / واحد مذکر و مؤنث متکلم، فعل مضارع منفی معلوم، باب نَصَرَ يَنْصُرُ۔
لا حرج: کوئی حرج نہیں ہے، کوئی گناہ نہیں ہے۔
شرح الحديث:
ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ یوم النحر کے چار اعمال ہیں: رمی جمار، قربانی کرنا، سر منڈوانا یا بال چھوٹے کرنا اور پھر طواف افاضہ کرنا۔ یہی مشروع ترتیب ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: 77/3]
افضل یہی ہے کہ ہر رکن بالترتیب ادا کیا جائے لیکن اگر لاعلمی میں ترتیب درست نہ رہے تو کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے دوبارہ کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔
(244) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب الفتيا على الدابة عند الجمرة ، ح: 1736 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب من حلق قبل النحر أو نحر قبل الرمي ، ح: 1306
منیٰ سےکنکریاں لینا مکروہ سمجھا گیا ہے
245 – الْحَدِيثُ السَّادِسُ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيِّ { أَنَّهُ حَجَّ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ . فَرَآهُ رَمَى الْجَمْرَةَ الْكُبْرَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ فَجَعَلَ الْبَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ ، وَمِنًى عَنْ يَمِينِهِ . ثُمَّ قَالَ: هَذَا مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ } .
عبد الرحمن بن یزید نخعی روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تو انھیں جمرہ کبری کی سات کنکریوں سے رمی کرتے دیکھا، انھوں نے بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب کیا اور منیٰ کو اپنے دائیں جانب، پھر فرمایا: یہی ان کا بھی مقام تھا جن پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔
شرح المفردات:
حصيات: یہ حصاۃ کی جمع ہے، کنکریاں، پتھریاں، سنگ ریزیاں۔
شرح الحديث:
بعض حجاج مزدلفہ ہی سے کنکریاں لے لیتے ہیں یا منیٰ میں پہنچنے سے پہلے راستے میں سے اُٹھا لیتے ہیں، کنکریاں جہاں سے بھی لی جائیں جائز ہیں، البتہ منیٰ سے لینا مکروہ سمجھا گیا ہے اور اسی طرح کنکریوں کو توڑنا بھی کراہت کا عمل بتلایا گیا ہے۔ کنکری نہ بہت بڑی ہونی چاہیے اور نہ بہت چھوٹی ۔ اگر کنگری نجس ہے تو اسے دھونے سے نجاست زائل ہو جائے گی لیکن اگر نہ دھویا جائے تو بھی جائز ہے، نہ دھونے کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ کنکریوں کی تعداد سات ہونی چاہیے۔ پھر کنکریاں مارتے وقت یکے بعد دیگرے ایک ایک کنکری مارنی چاہیے، ساری اکٹھی مارنا جائز نہیں ہے۔ [كشف اللثام للسفاريني: 410/4]
اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ کنکریاں جہاں سے بھی ماری جائیں جائز ہے، یعنی خواہ اس کی طرف سیدھا رخ کیا جائے، یا اسے اپنے دائیں اور بائیں کر لیا جائے یا اس کے اوپر اور نیچے ہو لیا جائے ، سب جائز ہے، اختلاف اس کے افضل ہونے میں ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 572/3]
راوى الحديث:
عبد الرحمن بن فرید رحمہ اللہ ثقہ تابعی تھے اور کوفہ سے تعلق تھا۔ آپ کے سن وفات کے بارے میں دو قول منقول ہیں: یحیی بن بکیر کے مطابق آپ کی وفات 73 ہجری میں ہوئی اور فلاس کے نزدیک آپ کا سن وفات 83 ہجری ہے۔
(245) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب من رمى جمرة العقبة فجعل البيت عن يساره ، ح: 1749 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب رمى جمرة العقبة من بطن الوادى ، ح: 1296