سوال : کیا صلاۃِ تراویح صرف سنت ہے یا سنتِ مؤکدہ ہے ؟ اس کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب : یہ سنتِ مؤکدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ماتقدم من ذنبه [صحيح: صحيح بخاري، صلاة التراويح 31 باب فضل من قام رمضان 1 رقم 2009 بروايت ابوهريره رضي الله عنه، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 6 باب الترغيب فى قيام رمضان وهو التر اويح 25 رقم 173، 174، 175، 759]
’’ جس شخص نے ایمان کے تقاضے سے اور اجر و ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے “۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے صحابۂ کرام کو چند راتیں جماعت کے ساتھ صلاۃ تراویح پڑھائی، پھر اس کی فرضیت کے خوف سے آپ نے پڑھانا ترک کر دیا، لیکن صحابہ کو ترغیب دی کہ وہ خود پڑھتے رہیں۔ چنانچہ کوئی اسے تنہا پڑھتا رہا۔ کہیں دو آدمی اور کہیں تین آدمی ساتھ پڑھتے رہے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ادائیگی صلاۃ اور سماعتِ قرآن میں اجتماعیت کے پیشِ نظر انہیں ایک امام کے تابع کر دیا، جس کا سلسلہ مسلمانوں میں آج تک باقی ہے۔ ’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “
جواب : یہ سنتِ مؤکدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ماتقدم من ذنبه [صحيح: صحيح بخاري، صلاة التراويح 31 باب فضل من قام رمضان 1 رقم 2009 بروايت ابوهريره رضي الله عنه، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 6 باب الترغيب فى قيام رمضان وهو التر اويح 25 رقم 173، 174، 175، 759]
’’ جس شخص نے ایمان کے تقاضے سے اور اجر و ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے “۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے صحابۂ کرام کو چند راتیں جماعت کے ساتھ صلاۃ تراویح پڑھائی، پھر اس کی فرضیت کے خوف سے آپ نے پڑھانا ترک کر دیا، لیکن صحابہ کو ترغیب دی کہ وہ خود پڑھتے رہیں۔ چنانچہ کوئی اسے تنہا پڑھتا رہا۔ کہیں دو آدمی اور کہیں تین آدمی ساتھ پڑھتے رہے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ادائیگی صلاۃ اور سماعتِ قرآن میں اجتماعیت کے پیشِ نظر انہیں ایک امام کے تابع کر دیا، جس کا سلسلہ مسلمانوں میں آج تک باقی ہے۔ ’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “