کیا فون پر چاند کی شہادت قبول ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال:

کسی دوسرے شہر سے فون کے ذریعے خبر یا شہادت لے کر چاند کا اعلان کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:

موبائل فون کے ذریعے حاصل کردہ خبر پر اعتماد کرنا جائز ہے کیونکہ ٹیلی فون کو تحریر کے حکم میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جیسے تحریر میں بعض اوقات غلطی کا امکان ہوتا ہے، ویسے ہی دو آوازوں کے فرق کو پہچاننے میں بھی مشکل ہو سکتی ہے۔ لیکن جس طرح تحریر کی درستگی کا غالب گمان دوسرے شواہد اور خارجی اسباب سے کیا جا سکتا ہے، ویسے ہی ٹیلی فون کی خبر کی تصدیق بھی ممکن ہے۔

مثال کے طور پر، اگر پہلے سے کسی شخص کو خبر دینے کے لیے مقرر کیا جائے اور وہ مقررہ وقت پر خبر پہنچا دے، یا اگر فون کے ذریعے اس سے رابطہ کر کے آواز پہچان لی جائے تو اس شخص کی شناخت کا غالب گمان ہو سکتا ہے۔ ہم بڑے بڑے دنیاوی معاملات میں بھی اس طرح کے شواہد و قرائن کا سہارا لیتے ہیں۔

لہٰذا، جن معاملات کا تعلق خبر اور اطلاع سے ہے، ان میں ٹیلی فون کی بنیاد پر خبر کو معتبر مانا جا سکتا ہے۔ تاہم، جہاں گواہی کی ضرورت ہو، وہاں صرف فون کافی نہیں ہوتا بلکہ گواہ کا روبرو حاضر ہونا ضروری ہے۔ ایسے مواقع پر یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے کہ دارالقضاء یا رؤیت ہلال کی گواہی لی جائے اور پھر فون کے ذریعے مرکزی کمیٹی کو اطلاع دی جائے۔

موبائل کے ذریعے دی جانے والی اطلاع دراصل گواہی نہیں ہوتی بلکہ خبر ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی ضلعی یا تحصیلی سطح پر کمیٹیاں بناتی ہے۔ اگر کوئی شخص چاند دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ تحصیلی یا ضلعی کمیٹی کے سامنے گواہوں کی موجودگی میں گواہی دے گا۔ کمیٹی اس کی تحقیق کرے گی، اور پھر یہ کمیٹیاں مرکزی کمیٹی کو بذریعہ فون اطلاع دیں گی، لیکن یہ اطلاع گواہی نہیں سمجھی جائے گی۔

لہٰذا، فون کے ذریعے گواہی کی اطلاع دینا جائز ہے، کیونکہ یہ اطلاع دینے کے عمل کی طرح ہے، جیسے ٹی وی یا ریڈیو کے ذریعے خبر دی جاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بذریعہ فون گواہی کی خبر دینا جائز ہے، مگر یہ گواہی دینا نہیں سمجھا جاتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے