عاشوراء کے دن اہل خانہ پر خرچ کرنا
کہا جاتا ہے کہ عاشوراء کے دن خاص کر کے گھر والوں کو عمدہ کھانا کھلانا اور ان پر خوب خرچ کرنا آئندہ سال تک کشادگی اور خوش حالی کا باعث ہے، مگر عاشوراء کی یہ خاص فضیلت ثابت نہیں۔
کسی عمل کو کسی دن کے ساتھ خاص کرنا شریعت کا وظیفہ ہے، کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی عمل کو کسی دن کے ساتھ خاص کرے۔
عاشورا کے دن اہل وعیال پر فراوانی کرنے کے بارے میں مروی ساری کی ساری روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں، ملاحظہ ہو:
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي سَائِرِ سَنَتِهِ.
’’جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر وسعت کی ، اللہ تعالیٰ اسے سارا سال وسعت عطا کر دے گا۔“
(الضعفاء الكبير للعقيلي : 252/3 ، المعجم الكبير للطبراني : 77/10، الرقم :10007 ، شُعب الإيمان للبيهقي : 3513)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ ہیصم بن شداخ سخت ضعیف ہے۔
◈ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
اتَّفَقُوا عَلَى ضَعْفِه
’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔“
(الأمالي المطلقة : 29)
➋ علی بن ابی طالب مہاجر بزاز مجہول ہے۔
➌ اعمش کا عنعنہ ہے۔
➍ ابراہیم نخعی کا عنعنہ ہے۔
◈ امام عقیلیؒ نے اس حدیث کو غیر محفوظ کہا ہے۔
(الضعفاء الكبير : 252/3)
◈ امام ابن حبانؒ نے اس حدیث کو غیر محفوظ قرار دیا ہے۔
(كتاب المجروحين : 97/3)
◈ حافظ ذہبیؒ نے اس حدیث کو من گھڑت قرار دیا ہے۔
(میزان الاعتدال : 158/3)
❀ اس کی دوسری سند بھی ہے۔
(التوسعة لأبي زرعة العراقي : 6)
سند سخت ضعیف ہے۔
➊ کر زبن و برہ کی توثیق نہیں۔
➋ ابوطیبه عیسی بن سلیمان جرجانی ضعیف اور صاحب مناکیر ہے۔
➌ سعد بن سعید جرجانی متکلم فیہ ہے۔
◈ حافظ ابن عساکرؒ فرماتے ہیں:
غَرِيبٌ جِدًّا.
’’سخت منکر روایت ہے۔“
(التوسعة لأبي زرعة العراقي تحت الرقم : 6)
◈ حافظ عراقیؒ فرماتے ہیں:
هُوَ حَدِيثٌ مُنْكَرُ، وَأَحْسَبُ آفَتَهُ مِنْ مُتَأَخَرِي رُوَاتِهِ .)
’ یہ حدیث منکر ہے، میرے مطابق اس میں آفت نیچے والے راویوں کی طرف سے ہے۔“
(التوسعة، تحت الرقم : 6)
❀ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من وسع عَلَى أَهْلِهِ وَعِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ أَوْسَعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِه .
جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر وسعت کی ، اللہ تعالی اسے سارا سال وسعت عطا کر دے گا۔
(الضعفاء الكبير للعقيلي : 65/4، تاريخ أصبهان لأبي نعيم : 239/1، شُعب الإيمان للبيهقي : 3515)
روایت سخت ضعیف ہے۔
➊ محمد بن ذکوان جہضمی ضعیف و منکر الحدیث ہے ۔
➋ حجاج بن نصیر ضعیف ومتروک ہے۔
◈ امام دار قطنیؒ فرماتے ہیں:
أَجْمَعُوا عَلَى تَرْكِهِ .
’’اس کے متروک ہونے پر محدثین کا اجماع ہے۔“
(الضعفاء والمتروكون : 172)
➌ سلیمان بن ابی عبداللہ مجہول الحال ہے۔
◈ امام عقیلیؒ فرماتے ہیں:
مَجْهُولٌ بِالنَّقْلِ.
’’نقل روایت میں مجہول ہے ۔“
(الضعفاء الكبير : 65/4)
➍ سلیمان کا سیدنا ابو ہریرہؓ سے سماع کا مسئلہ ہے۔
◈ امام عقیلیؒ نے اس حدیث کو غیر محفوظ کہا ہے۔
(الضعفاء الكبير : 65/4)
◈ حافظ بیہقیؒ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(شعب الإيمان، تحت الرقم : 3515)
اس کی دوسری سند بھی ہے۔
(التوسعة لأبي زرعة العراقي : 8)
جھوٹی روایت ہے۔
محمد بن علی عشاری کی مرویات میں کسی نے من گھڑت روایات شامل کر دی گئیں تھیں ، جسے وہ پہنچان نہ سکا۔
◈ حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں :
مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْفَتْحِ ، أَبُو طَالِبِ الْعَشَارِيُّ شَيْخٌ صَدُوقٌ مَّعْرُوفٌ، لَكِنْ أَدْخَلُوْا عَلَيْهِ أَشْيَاءَ فَحَدَّثَ بِهَا بِسَلَامَةِ بَاطِنٍ ، مِنْهَا حَدِيثُ مَّوْضُوعٌ فِي فَضْلٍ لَيْلَةِ عَاشُورَاءَ .
’’محمد بن علی بن الفتح ابو طالب عشاری مشہور صدوق ہے، لیکن اس کی مرویات میں بعض ( ضعیف و من گھڑت ) روایتیں شامل کر دی گئی ہیں، ثقہ ہونے کے باوجود اس نے یہ روایات بیان کی ہیں، اس کی مرویات میں شب عاشورا کی فضیلت کے بارے میں بھی من گھڑت روایت موجود ہے ۔“
(میزان الاعتدال : 656/3)
نیز فرماتے ہیں:
قَدْ أُدْخِلَ فِي سَمَاعِهِ مَا لَمْ يَتَفَطَّنْ لَهُ
’’اس کے سماع میں ایسی چیزیں شامل کر دی گئیں ہیں، جن کا اُسے خود علم نہیں ۔“
(سِير أعلام النبلاء : 49/18)
◈ حافظ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں :
هذَا حَدِيثُ لَا يَشُكُ عَاقِلٌ فِي وَضْعِهِ .
’’اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں کوئی عقل مند شک نہیں کر سکتا۔“
(الموضوعات : 210/2)
◈ حافظ سیوطیؒ فرماتے ہیں:
الظَّاهِرُ أَنَّ بَعْضَ الْمُتَأَخْرِينَ وَضَعَهُ وَرَكَّبَهُ عَلَى هَذَا الْإِسْنَادِ.
’’یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسے نیچے والے کسی راوی نے گھڑا ہے اور اس کے متن کو اس سند پر چسپاں کر دیا ہے۔“
(اللآلي المصنوعة : 93/2)
❀ سیدنا ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ وَسَّعَ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِه.
’’جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل خانہ پر وسعت کی ، اللہ تعالیٰ اسے سارا سال وسعت عطا کر دے گا۔“
(النفقة على العِيال لابن أبي الدُّنيا : 385 ، شُعب الإيمان للبيهقي : 3514)
سند سخت ضعیف ہے۔
➊ ایوب بن سلیمان بن میناء مجہول الحال ہے۔
➋ رجل مبہم ہے۔
➌ عبد اللہ بن نافع صائغ کتاب سے روایت کرے، تو معتبر ہے، حافظہ سے کرے، تو غیر معتبر ہے، معلوم نہیں کہ اس نے یہ روایت کتاب سے کی ہے۔
◈ حافظ عراقیؒ فرماتے ہیں:
لَا يَصِحُ.
’’یہ روایت ثابت نہیں ۔“
(التوسعة، تحت الرقم : 9)
❀ اس کی دوسری سند بھی ہے۔
(معجم ابن الأعرابي : : 225 ، المعجم الأوسط للطبراني : 9302)
سند سخت ضعیف و منکر ہے۔
➊ عبد اللہ بن سلمہ ربعی منکر الحدیث ہے۔
➋ محمد بن اسماعیل جعفری ضعیف و منکر الحدیث ہے۔
❀ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ وَسَّعَ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَى أَهْلِهِ طُولَ سَنَتِهِ .
جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل خانہ پر وسعت کی ، اللہ تعالیٰ اسے سارا سال وسعت عطا کر دے گا۔
(شعب الإيمان للبيهقي : 3512)
سند جھوٹی ہے۔
➊ عبد اللہ بن ابراہیم غفاری متروک و وضاع ہے۔
➋ محمد بن یونس کدیمی متروک و متہم ہے۔
◈ امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں:
كَانَ يَضَعُ عَلَى الثَّقَاتِ الْحَدِيثَ وَضْعًا وَلَعَلَّهُ قَدْ وَضَعَ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ حَدِيثٍ .
’’یہ ثقہ راویوں سے منسوب کر کے حدیث گھڑتا تھا،ممکن ہے کہ اس نے ایک ہزار سے زائد روایات وضع کی ہوں۔“
(كتاب المجروحين : 313/2)
➌عبد اللہ بن ابی بکر ابن اخی محمد بن منکدر کے حالات زندگی نہیں ملے۔
حافظ بیہقیؒ فرماتے ہیں:
هذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ .
’’یہ سند ضعیف ہے۔“
(شعب الإيمان، تحت الرقم : 3512)
❀ اس کی دوسری سند بھی ہے۔
(الاستذكار لابن عبد البر : 331/3)
سند ضعیف و منکر ہے۔ ابوخلیفہ فضل بن حباب ثقہ ہے، مگر اس کی کتابیں ضائع ہو گئیں تھیں، جس کی وجہ سے اس کی بعض احادیث میں اغلاط واقع ہو گئیں، جن پر کئی اہل علم نے نشاندہی کی ہے، اس روایت پر بھی نقد کیا گیا ہے، لہذا ممکن ہے کہ یہ روایت بھی انہوں نے کتابیں جلنے کے بعد بیان کی ہو۔
◈ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
حَدِيثًا مُنْكَرًا جِدًّا مَا أَدْرِي مَنِ الْآفَةُ فِيهِ : فَالظَّاهِرُ أَنَّ الْغَلَطَ فِيهِ مِنْ أَبِي خَلِيفَةَ، فَلَعَلَّ ابْنَ الْأَحْمَرَ سَمِعَهُ مِنْهُ بَعْدَ احْتِرَاقِ كُتُبِهِ وَاللهُ أَعْلَمُ.
یہ سخت منکر حدیث ہے، نہیں معلوم کہ اس میں اصل علت کیا ہے ۔ لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اس میں غلطی ابوخلیفہ کی طرف سے ہے، ہو سکتا ہے کہ ابن الاحمر نے ابوخلیفہ سے کتابیں جلنے کے بعد روایت سنی ہوں۔واللہ اعلم !
(لسان الميزان : 439/4-440)
❀ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَةٍ.
’’جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر وسعت کی ، اللہ تعالیٰ اسے سارا سال وسعت عطا کر دے گا۔“
(العلل المتناهية لابن الجوزي : 62/2)
روایت باطل ہے۔
➊ یعقوب بن خرہ دباغ ضعیف ہے۔
➋ سفیان بن عیینہ مدلس ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔
➌ زہری کا عنعنہ ہے۔
◈ اس روایت کو امام دارقطنیؒ نے منکر کہا ہے۔
(العلل لابن الجوزي : 63/2 ، لسان الميزان لابن حجر : 307/6)
◈ حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں :
كَانَ خَبَرًا بَاطِلًا .
’’یہ باطل روایت ہے۔“
(میزان الاعتدال : 452/4)
❀ اس کی دوسری سند بھی ہے۔
(التوسعة للعراقي : 12)
سند باطل ہے۔
➊ ہلال بن خالد مجہول ہے۔
➋ خطاب بن اسلم کے حالات زندگی نہیں ملے۔
➌ اسباط بن یسع مجہول ہے۔
➍ سہل بن ابی عیسی فراہانی کے حالات نہیں ملے۔
➎ محمد بن خفیف بن جعفر بن زین کا کوئی اتا پتا نہیں۔
◈ خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں:
فِي إِسْنَادِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْمَجَاهِيلَ.
’’اس کی سند میں کئی ایک مجہول راوی ہیں ۔”
(التوسعة للعراقي، تـحت الرقم : 12)
❀ سیدنا عمر بن خطابؓ سے موقوف روایت ہے:
مَنْ وَسَّعَ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ سَائِرَ السَّنَةِ .
’’جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل خانہ پر وسعت کی ، اللہ تعالیٰ اسے سارا سال وسعت عطا کر دے گا۔“
(الاستذكار لابن عبد البر : 331/3)
سند منقطع ہے۔ سعید بن مسیب کا سیدنا عمر بن خطابؓ سے سماع نہیں ۔
◈ امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں:
سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَنْ عُمَرَ مُرْسَلٌ.
’’سعید بن مسیب کی سیدنا عمرؓ سے روایت مرسل ہوتی ہے ۔“
(المراسيل لابن أبي حاتم : 248)
◈ یہی بات امام یحییٰ بن معینؒ نے فرمائی ہے۔
(المراسيل لابن أبي حاتم :247)
ہمارے مطابق یہی رائج ہے، لہذا ہم سابقہ تحقیق سے رجوع کرتے ہیں۔
◈ تابعی صغیر ابراہیم بن محمد بن منتشرؒ سے مروی ہے:
كَانَ يُقَالُ : مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ لَمْ يَزَالُوا فِي سَعَةٍ مِنْ رِزْقِهِمْ سَائِرَ سَنتِهم.
’’کہا جاتا ہے کہ جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر وسعت کی ، اللہ تعالیٰ انہیں سارا سال رزق میں وسعت دیے رکھے گا۔“
(تاریخ ابن معين برواية الدوري : 2223 ، شعب الإيمان للبيهقي : 3516)
یہ نا معلوم لوگوں کا قول ہے۔ مرفوع اور موقوف روایات میں کوئی بھی ثابت نہیں ۔
◈ امام عقیلیؒ فرماتے ہیں :
لَا يَثْبُتُ فِي هَذَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ.
’’اس باب میں نبی کریم ﷺ سے کوئی روایت ثابت نہیں۔“
(الضعفاء الكبير : 252/3)
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
يَذْكُرُونَ فِي فَضَائِلِ عَاشُورَاءَ مَا وَرَدَ مِنَ التَّوْسِعَةِ عَلَى الْعِبَالِ، وَفَضَائِلِ الْمُصَافَحَةِ وَالْحِنَّاءِ وَالْخِضَابِ وَالِاغْتِسَالِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَيَذْكُرُونَ فِيهَا صَلَاةٌ، وَكُلُّ هَذَا كَذِبٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَصِحٌ فِي عَاشُورَاءَ إِلَّا فَضْلُ صِيَامِهِ.
’’لوگ یوم عاشورا کے فضائل میں اہل خانہ پر وسعت کرنے ، مصافحہ کرنے ، مہندی لگانے ، خضاب لگانے اور غسل کرنے کا ذکر کرتے ہیں ، نیز عاشوراء کی مخصوص نماز کا بھی ذکر کرتے ہیں، مگر یہ سب رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ ہے، عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کے علاوہ کوئی فضیلت ثابت نہیں ۔“
(منهاج السنة : 39/7)
◈ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
لَا يَصِحُ مِنْهَا شَيْءٌ وَلَا حَدِيثٌ وَاحِدٌ وَلَا يَثْبُتُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْءٌ غَيْرُ أَحَادِيثِ صِيَامِهِ وَمَا عَدَاهَا فَبَاطِلٌ.
’’عاشوراء کے دن کوئی خاص عمل مشروع نہیں ، نہ اس بارے میں کوئی (صحیح) حدیث ہے، نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں، سوائے عاشوراء کے روزہ کے۔اس کے علاوہ سب باطل ہے۔“
(المنار المنيف ، ص 111)