17۔ کیا جن غیب جانتے ہیں ؟
جواب :
عالم الغیب صرف الله تعالی ہے۔ جو عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا ہے۔
فرمان الہیٰ ہے :
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ ﴿٥﴾
”اور بلاشبہ یقیناً ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے انھیں شیطانوں کو مارنے کے آلے بنایا اور ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ [الملك: 5 ]
یعنی آسمان میں موجود ستاروں، بلکہ شہابوں سے بھی مزین کر دیا، جن سے شیاطین کو بھگایا جاتا ہے۔
مزید فرمان الہیٰ ہے :
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾
”پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔“ [سبأ: 14 ]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث سنائی کہ ایک رات وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک ایک ستارا پھینکا گیا تو ہر طرف روشنی ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : جب اس کی مثل ( کوئی ستارا) پھینکا جائے تو تم کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم تو کہتے ہیں، آج کی رات کوئی عظیم ہستی پیدا یا فوت ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ستارا کسی کی زندگی یا موت کی وجہ سے نہیں پھینکا جاتا، بلکہ ہمارا رب جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے (اس وقت) عرش کو اٹھانے والے فرشتے تنبیہ کرتے ہیں۔ پھر آسمان میں اس کے پاس والے تسبیح کرتے ہیں، حتی کہ یہ تسبیح آسمانِ دنیا والوں تک پہنچ آتی ہے۔ پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کے پاس والے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں : تمھارے رب نے کیا کہا ؟ پھر باقی آسمانوں والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں حتی کہ آسمانِ دنیا والوں تک بات آتی ہے۔ جنات اس بات کو چپکے سے سن کر اپنے دوستوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ پھر جو بات وہ بعینہ لاتے ہیں وہ تو حق ہے، لیکن وہ اس میں جھوٹ ملاتے اور اضافہ کرتے ہیں۔ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2229]