جواب: اکیلے شخص کا اذان اور اقامت کہہ کر نماز ادا کرنا سنت سے ثابت ہے ۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يعجب ربك عز وجل من راعي غلم فى رأس شفية بجبل يؤذن للصلاة ويصلي ، فيقول الله عز وجل: انظروا إلى عبدي هذا يؤذن ويقيم للصلاة ، يخاف مني ، قد غفرت
لعبدي ، وأدخلته الجنة
”پہاڑ کی چوٹی پر اذان کہہ کر نماز ادا کرنے والے بکریوں کے چرواہے پر تیرا رب تعجب کرتا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں: میرے اس بندے کو دیکھو ، جو اذان و اقامت کہہ کر نماز ادا کر رہا ہے ، اس کے دل میں صرف میرا خوف ہے ۔ میں نے اسے معاف کر دیا ہے اور جنت عطا کر دی ہے ۔“ [مسند أحمد: ١٥٨/٤ ، سنن أبى داود: ١٢٠٣ ، سنن النسائي: ٦٦٧ ، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (1660) نے ”صحیح“ کہا ہے ۔
اذان شعار اسلام ، ذکر الہی اور اللہ کی تعظیم پر مبنی کلمات کا مجموعہ ہے ۔ اللہ کی زمین پر توحید کی صدا ہے ۔
مؤذن اپنے آپ کو صلاح و فلاح کی دعوت دیتا ہے ۔ یہ عمل اللہ کے ہاں انتہائی محبو ب ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی ہے ۔ باعث مغفرت اور دخول جنت کا ذریعہ ہے ۔ خوفِ الہی کا آئینہ دار ہے ۔