کھانے کی موجودگی میں نماز کی ادائیگی کا حکم
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي قِصَّةٍ، أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الاخبثان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں: ”کھانے کی موجودگی میں نماز نہیں ہوتی اور نہ ہی اس شخص کی نماز ہوتی ہے جسے بول، براز تنگ کر رہے ہوں ۔“
تحقیق و تخریج:
مسلم: 560
فوائد:
➊ ایسے کام جن سے نماز میں وسواس کا اندیشہ ہوتا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ نماز کے وقت کھانا سامنے آ جائے بھوک بھی ہو تو پھر جماعت یا نماز میں داخل ہو یہ درست نہیں ہے پہلے کھانا کھایا جائے اسی طرح پاخانہ یا پیشاب آیا ہوا ہو بغیر حاجت قضائی کے نماز میں شامل ہو جائے تو یہ غیر صحیح طریقہ ہے ۔
➋ اسلام انسانی ضروریات کو ساتھ لے کر چلتا ہے کسی موقعہ یا مقام پر وہ انسان کو ضرور پہنچانا پسند نہیں کرتا ۔
➌ وقت پر بول و براز نہ کرنا یہ مثانہ اور معدہ کے نظام کو کمزور بھی کر دیتا ہے ۔ اس سے کئی امراض جنم لیتی ہیں لہٰذا محتاط رہنا چاہیے ۔
➍ وقت نماز بھوک یا حاجت کا آجانا خلاف شریعت معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ تو انسان پر آسانی کا دین ہے ۔
➎ یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان معمول کا خواہ کتنا کار بند ہو پھر بھی بھوک یا حاجت پر کنٹرول نہیں کر پاتا یہ اللہ کے حکم سے انسانی وجود کو لاحق ہوتی ہیں ۔ یہ نہ آدمی کے آرام کے وقت کو دیکھتی ہیں نہ عبادت کے وقت کو ۔ نماز کے وقت ضرورت پیش آجانا شرعی عذر ہے ۔ بھوک لگنا یا حاجت کا آنا یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں کتنے ہی لوگ ہیں جو بھوک اور حاجت قضائی جیسی نعمتوں سے محروم ہیں

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: