کبیرہ گناہ کے مرتکب کی نماز جنازہ سے متعلق 7 ہدایات

کبیرہ گناہ کے مرتکب شخص کا نماز جنازہ

اسلام میں گناہ گار مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنے کا عمومی حکم موجود ہے، تاہم بعض حالات میں علماء کرام کے لیے اس سے اجتناب کی ہدایت بھی موجود ہے تاکہ لوگوں کو گناہوں سے بچنے کی تلقین ہو اور معاشرے میں عبرت کی فضا قائم ہو۔

عام مسلمانوں کو گناہ گاروں کی نماز جنازہ پڑھنا

مسلمانوں کو عمومی طور پر گناہ گار مسلمان کا نماز جنازہ پڑھنا چاہیے۔

اگر کوئی شخص کبیرہ گناہوں میں مشہور ہو، تو بڑے علماء اور ممتاز شخصیات کو اس کی نماز جنازہ سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کے دلوں میں گناہ سے نفرت پیدا ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل

قرض دار کے متعلق نبی کریم ﷺ کا رویہ

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا اور عرض کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔

آپ نے پوچھا: "کیا اس پر قرض ہے؟”

لوگوں نے کہا: "نہیں۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔

پھر دوسرا جنازہ لایا گیا، آپ نے پوچھا: "کیا اس پر قرض ہے؟”

صحابہ نے بتایا: "ہاں۔”

آپ نے پوچھا: "کیا اس نے وراثت چھوڑی ہے؟”

جواب دیا گیا: "تین دینار۔”

تو آپ نے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔

پھر تیسرا جنازہ لایا گیا، آپ نے پوچھا: "کیا اس پر قرض ہے؟”

صحابہ نے جواب دیا: "ہاں، تین دینار۔”

آپ نے فرمایا:
"تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔”

اس پر سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "اس کا قرض میرے ذمے ہے، آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔”
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔

(بخاری، الحوالات، ان احال دین المیت علی رجل جاز، 9822)

چوری کرنے والے کے بارے میں ہدایت

سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

خیبر کی جنگ میں ایک شخص فوت ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو، بے شک اس نے مال غنیمت میں سے چوری کی ہے۔”

(النسائی، الجنائز، الصلاۃ علی من غل، 1691)

خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جس نے خود کشی کی تھی۔‘‘

(مسلم، الجنائز، باب ترک الصلاۃ علی القاتل نفسہ، 879)

علماء کا فتاویٰ: خودکشی کرنے والے کا جنازہ

شیخ ابن باز رحمہ اللہ (رئیس دارالافتاء سعودی عرب) فرماتے ہیں:

  • خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا۔
  • اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
  • اسے مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔

کیونکہ وہ گناہ گار ہے، کافر نہیں۔

خودکشی ایک معصیت ہے، کفر نہیں۔

تاہم معروف عالم دین یا اہم شخصیت کو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنی چاہیے تاکہ ایسا نہ لگے کہ وہ اس کے عمل سے راضی ہیں۔

(فتاویٰ اسلامیہ، صفحہ 99)

احادیثِ مبارکہ میں خودکشی کی وعید

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر مارتا ہے وہ جہنم میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا، اور جو شخص نیزہ چبھو کر اپنی جان دیتا ہے وہ جہنم میں اپنے آپ کو نیزہ مارتا رہے گا، اور وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘

(بخاری، الجنائز، باب ماجاء فی قاتل النفس، 5631، مسلم: 901)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی جان خود لی، اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘

(بخاری، احادیث الانبیاء، 3643، مسلم، الإیمان، باب غلظ تحریم قتل الإنسان نفسہ، 311)

عبرت اور اصلاح کے لیے علماء کی عدم شرکت

معزز اہل علم کو ایسے شخص کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہونا چاہیے جس نے کبیرہ گناہ کیا ہو، تاکہ عوام الناس کے لیے عبرت حاصل ہو اور وہ ایسے اعمال سے باز رہیں۔

توبہ کرنے والے گناہ گار کی نماز جنازہ

اگر کوئی گناہ گار توبہ کر لے یا دنیا میں اس پر حد نافذ ہو جائے، تو بڑے عالم کو اس کی نماز جنازہ پڑھانی چاہیے۔

مثال:
ایک صحابیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کا اعتراف کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری کی۔

پھر اس کا نماز جنازہ پڑھا اور تدفین کی۔

(مسلم، الحدود، من اعترف علی نفسہ بالزنی، 5961)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1