استنجاء کے لیے پتھروں یا ڈھیلوں کی تعداد – مکمل وضاحت
سوال
استنجاء کے لیے پتھروں یا ڈھیلوں کی کتنی تعداد ہونی چاہیے؟ اور کیا یہ تعداد صرف بڑے پیشاب (پاخانہ) کے لیے ہے یا دونوں (پیشاب و پاخانہ) کے لیے؟
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
استنجاء کے تین طریقے
◈ صرف پانی سے استنجاء کرنا
◈ صرف پتھروں سے استنجاء کرنا
◈ پانی اور پتھروں دونوں سے استنجاء کرنا
پہلی دو صورتیں:
یہ دونوں طریقے صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔
تیسری صورت:
اس کی تائید میں کوئی صحیح الاسناد حدیث موجود نہیں۔
صرف ایک ضعیف الاسناد روایت ہے جس میں اہلِ قباء کے متعلق آیا ہے کہ وہ پانی اور پتھر دونوں استعمال کرتے تھے، جیسا کہ قرآن کی آیت:
﴿فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا ۚ وَاللَّـهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ ١٠٨﴾
(سورہ التوبہ: 108)
امام نووی، حافظ ابن حجر، ابن کثیر، اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے
(تمام المنہ، ص: 65)۔
سنن ابی داؤد (7؍1، حدیث: 44) میں اہلِ قباء کے بارے میں صحیح روایت آئی ہے لیکن اس میں پتھروں کا ذکر موجود نہیں۔
امام بیہقی (1؍10) کی روایت جس میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ:
"یقینا وہ مینگنی کی طرح (خشک) پاخانہ کرتے تھے اور تم گوبر کی طرح (نرم) پاخانہ کرتے ہو، تم پتھروں کے بعد پانی استعمال کر لیا کرو۔”
یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ:
◈ یہ موقوف ہے۔
◈ عبد الملک اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔
◈ راوی مدلس ہے اور سماع کی وضاحت نہیں کی گئی۔
مولانا عبد الحی نے اس روایت کو ہدایہ کے حواشی میں ذکر کیا ہے۔
استنجاء کی تیسری قسم (پانی اور پتھر دونوں کا استعمال)
بعض علماء نے اسے مستحب کہا ہے، لیکن اس پر کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔
زیادہ سے زیادہ یہ مباح ہو سکتی ہے، جیسا کہ
مغنی (1؍184) میں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب پانی سے استنجاء کرلے تو مٹی (یا پتھر) کی ضرورت نہیں۔”
امام احمد رحمہ اللہ کا قول:
"اکیلا پانی ہی کافی ہے اور نبی ﷺ سے یہ منقول نہیں کہ آپ نے استنجاء میں پانی کے ساتھ مٹی استعمال کی ہو، نہ ہی اس کا حکم دیا ہے۔”
استنجاء میں تعداد کی وضاحت
اگر صرف پتھروں سے استنجاء کیا جائے:
تو تعداد واجب ہے۔
اگر پانی بھی استعمال ہو:
تو تعداد واجب نہیں ہے۔
صحیح احادیث سے دلائل:
➊ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ:
"ہمیں منع کیا گیا کہ:
◈ دائیں ہاتھ سے استنجاء کریں
◈ تین پتھروں سے کم کے ساتھ استنجاء کریں
◈ لید اور ہڈی سے استنجاء کریں”
(مسلم 1؍130، ترمذی 1؍9، مشکوٰۃ 1؍42)
➋ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میں تمہارے لیے بچے کے باپ کی مانند ہوں، جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرو، اور تین پتھروں کا حکم دیا۔”
(ابن ماجہ 1؍57، دارمی 1؍138، مشکوٰۃ 1؍42، ابو داؤد حدیث: 6، سند صحیح)
➌ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا:
"جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو استنجاء کے لیے تین پتھر اپنے ساتھ لے جائے، یہ اس کو کافی ہوں گے۔”
(ابو داؤد 1؍6، نسائی 1؍16، دارمی 1؍137، مشکوٰۃ 1؍42، احمد 6؍108-133)
سند صحیح
➍ حدیث خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ:
"استنجاء کے لیے تین پتھر استعمال کرو، ان میں لید نہ ہو۔”
(ابو داؤد حدیث: 31، ابن ماجہ 1؍57، دارمی 1؍137 – سند صحیح)
ان تمام احادیث میں تین پتھروں کا واضح ذکر موجود ہے۔
پتھروں کے استعمال سے متعلق اہم نکات:
◈ اگر ایک پتھر کے تین کونے ہوں تو تین بار پونچھنا کافی ہے۔
◈ الگ الگ تین پتھر استعمال کرنا افضل ہے۔
◈ چکنی مٹی یا لکڑی بھی پتھر کے قائم مقام ہو سکتے ہیں – جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔
◈ دُبر (پچھلی شرمگاہ) کے لیے تین پتھر متفق علیہ ہیں۔
قبل (اگلی شرمگاہ) کے لیے بھی تین پتھر؟
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قبل اور دبر دونوں کی طہارت کے لیے چھ بار پونچھنا افضل ہے – ہر ایک کے لیے تین تین بار۔”
"اگر ایک پتھر ہو جس کے چھ کونے ہوں تو جائز ہے۔”
(شرح مسلم 1؍131، شرح المھذب 2؍103، العرف الشذی 1؍10)
سلف کے زمانے میں بھی پیشاب کے بعد تین پتھروں کا استعمال معروف تھا۔
تین پتھروں کی تعداد کے وجوب پر مزید دلائل
◈ چھ پتھروں کے وجوب پر کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔
◈ تمام صحیح احادیث صرف تین پتھروں کے استعمال کی تاکید کرتی ہیں۔
ضعیف روایات سے استدلال کا رد:
بعض ضعیف حدیث جیسے:
"جس نے تین پتھروں سے استنجاء کیا اُس نے اچھا کیا، اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں۔”
(ابو داؤد 1؍6، مشکوٰۃ حدیث: 352)
یہ ضعیف ہے کیونکہ:
◈ حصین الحبرانی اور ابو سعید دونوں راوی مجہول ہیں۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث:
"وہ دو پتھر اور ایک لید لے کر آئے تو آپ ﷺ نے لید کو پھینک دیا۔”
بعض روایات میں آیا ہے:
"مجھے تیسرا پتھر لا دو۔”
اگرچہ اس روایت کے منقطع ہونے پر اعتراض کیا گیا، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
فتح الباری (1؍207) میں فرمایا کہ:
"مجھے یہ روایت متصل بھی ملی ہے۔”
حتیٰ کہ اگر یہ ضعیف بھی ہو، تب بھی "تیسرا پتھر لانے” کا مطالبہ اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ تیسرا پتھر پہلے سے موجود نہ تھا۔
اصولی قاعدہ:
◈ قولی حدیث (جس میں واضح حکم ہو) کو فعلی حدیث (عملی روایت) پر ترجیح حاصل ہے۔
◈ اور جب کوئی صارف (استعمال کا قرینہ) نہ ہو تو امر (حکم) وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
نتیجہ:
◈ صرف پتھروں سے استنجاء میں کم از کم تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے۔
◈ اگر پتھروں کے ساتھ پانی بھی استعمال کیا جائے تو تعداد واجب نہیں۔
تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ تین پتھروں کا استعمال کافی اور مسنون ہے، جبکہ اس کے خلاف کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب