پرویز کی نظر میں آخرت کیا ہے؟ – ایک گمراہ کن تعبیر کی وضاحت
پرویز، جسے "محرفِ قرآن” کے لقب سے یاد کیا گیا ہے، نے دیگر اسلامی اصطلاحات کی طرح ’آخرت‘ کے مفہوم کو بھی بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ نہ صرف قیامت اور حشر و نشر جیسے بنیادی عقائد کی نفی کرتا ہے بلکہ ’آخرت‘ کے مفہوم کو بھی مادّی اور دنیاوی فائدے کے دائرے تک محدود کر دیتا ہے۔
پرویز کا اپنی تحریر میں آخرت کا مفہوم
پرویز اپنی کتاب میں اپنے متبع سلیم کو آخرت کا مفہوم کچھ یوں سمجھاتا ہے:
”جو فائدہ پوری نوعِ انسانی کے اندر گردش کرتا ہوا افراد تک پہنچتا ہے، اسے مآلِ کار، آخرالامر یا مستقبل کا فائدہ کہا گیا ہے جس کے لئے قرآن میں آخرت (مستقبل) کی اصطلاح آئی ہے-“
(سلیم کے نام: ج١/ ص٢١٣)
تنقیدی نکتہ:
اگر آخرت کا مفہوم صرف انسانی فائدے پر مبنی ہے، تو پھر اُن لوگوں کی آخرت کا کیا ہوگا جو نوعِ انسانی کو نقصان پہنچاتے ہیں؟ پرویز کی تعریف ان لوگوں کو آخرت کے دائرے سے خارج کر دیتی ہے جو گمراہی یا نقصان کا سبب بنتے ہیں، حالانکہ قرآن کا تصور آخرت نفع و نقصان دونوں پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔
آخرت اور دنیاوی مفاد کا خلط
پرویز آخرت کے مفہوم میں دنیاوی سازوسامان کو بھی شامل کر دیتا ہے، جیسا کہ وہ کہتا ہے:
”سامانِ آخرت سے مقصود ہے وہ متاع جسے (انسان) آنے والی نسلوں کیلئے جمع کرتا ہے-“ (اسبابِ زوالِ امت: ص٢٦)
اعتراض:
اگر واقعی قرآن، آخرت کی اصطلاح کو دنیاوی متاع کے لیے استعمال کرتا تو نبی کریم ﷺ اپنی امت اور اہل بیت کے لیے دنیاوی فائدے کو فوقیت دیتے، مگر قرآن اس کے برعکس وضاحت کرتا ہے:
﴿يٰاَیہا النَّبِىُّ قُلْ لاِزْوَاجِكَ: إنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الْدُّنْيَا وَزِيْنَتھا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا، وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ وَالدَّارَ الاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللہ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الاحزاب: ٢٨،٢٩)
”يعنى اے نبى ! اپنى بيويوں سے کہہ دو: اگر تم دنيا كى زندگى اور اس كى زيب و زينت كى طلبگار ہو تو آؤ ميں تمہیں (دنيا كا) مال دے كر اچھى طرح سے رخصت كردوں، اور اگر تم اللہ اور اس كے پيغمبر اور آخرت كے گہر كى طلبگار ہو تواللہ تعالىٰ نے تم ميں سے نيكوكار عورتوں كے لئے اجرعظيم تيار كر رکھا ہے-“
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ آخرت کا مطلب دنیاوی مستقبل نہیں بلکہ وہ اخروی زندگی ہے جو اللہ، رسول اور دارالآخرہ کی طلب سے مشروط ہے۔
امام راغب کی تعریفِ آخرت
”ويعبر بالدار الاخرة عن النشأة الثانية كما يعبر بالدار الدنيا عن النشأة الاولىٰ“ (المفردات: ص١٣)
” آخرت كے گہر سے مراد دوسرى بار لوگوں كى تخليق ہے، جيسا کہ ان كى پہلى بار تخليق كو دارِ دنيا سے تعبير كيا جاتا ہے-“
اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ ’آخرت‘ کا مطلب دوسری زندگی (نشأة ثانیہ) ہے، نہ کہ دنیاوی نسلوں کے فائدے کا تصور۔
قیامت، حشر اور ملاقاتِ الٰہی کا انکار
پرویز قیامت کے دن قبروں سے اٹھائے جانے اور رب سے ملاقات کے قرآنی تصور کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”یہ تصور صحیح نہیں کہ جتنے لوگ مرتے ہیں وہ مرنے کے بعد قبروں میں روک لیے جاتے ہیں، اور پھر ان سب کو ایک دن اکٹھا اٹھایا جائے گا…“ (جہانِ فردا: ص١٨٠)
”وہ (خدا) ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے، اس لئے… مرنے کے بعد اس سے پھر جا کر ملنے کا تصور قرآنی نہیں-“ (جہانِ فردا: ص٣٤)
قرآنی دلائل:
﴿اَلَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنہمْ مُلَاقُوْا رَبِّہمْ وَاَنہمْ اِلَیہ رَاجِعُوْنَ﴾ (البقرة: ٤٦)
”وہ ايسے لوگ ہیں جنہیں یہ يقين ہے کہ وہ اپنے ربّ تعالىٰ سے ملنے والے ہیں اور اسى كى طرف لوٹ كر جانے والے ہیں-“
﴿قُلِ اللہ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ رَيْبَ فِیہ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الجاثیہ:٢٦)
”يعنى کہہ دو کہ اللہ ہى تمہیں زندگى بخشتا ہے پھر وہى تمہیں مارتا ہے پھر قيامت كے دن تمہیں اكٹھا كرے گا جس كے آنے ميں كوئى شك نہیں ہے، ليكن بہت سے لوگ اس سے بے علم ہیں-“
﴿وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الاَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاہمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہمْ اَحَدًا﴾ (الکہف: ٤٧)
”اس دن ہم پہاڑوں كو (اپنى جگہ سے) چلا ديں گے اور آپ زمين كوصاف ميدان ديکھو گے، اور سب لوگوں كو ہم اكٹھا كريں گے اور ان ميں سے كسى كو بھی پيچھے نہیں چھوڑيں گے-“
﴿وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِیہ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتَابِ لاَ يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلاَ كَبِيْرَةً اِلاَّ اَحْصَاہا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ (الکہف:٤٩)
” عملوں كا دفتر کھول كر سامنے رکھ ديا جائے گا، آپ مجرموں كو ديكھیں گے کہ جو كچھ اس ميں لکھا ہوگا، اسے ديکھ كر خوف زدہ ہو رہے ہوں گے، اور كہیں گے: ہائے شامت! یہ كيسى كتاب ہے کہ نہ چھوٹى بات كو چھوڑتى ہے اور نہ ہى بڑى بات كو، ہمارے ہر عمل كو ہى اس كتاب نے لکھ رکھا ہے، اور انہوں نے جو عمل كئے ہوں گے، اپنے سامنے پائيں گے، اور آپكا پروردگار كسى پر ظلم نہیں كرے گا.“
یہ تمام آیات واضح کرتی ہیں کہ قیامت کا دن برحق ہے، حشر و نشر ہوگا، اور ہر انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔
المفردات اور قیامت کی حقیقت
امام راغب کے مطابق:
”وسمى يوم القيامة يوم الحشر كما سمى يوم البعث ويوم النشر“ (المفردات: ص١٢٠)
”قيامت كے دن كو ہى حشر كا دن کہا جاتا ہے، جيسا کہ اسے بعث و نشور كے دن سے بھی موسوم كيا جاتا ہے-“
”الساعة الكبرىٰ وہى بعث الناس للمحاسبة“ (المفردات: ص٢٤٨)
”يعنى قيامت ِكبرىٰ سے مراد لوگوں كا حساب و كتاب كے لئے اٹھايا جانا ہے-“
ان عبارات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت کا دن ہی حشر کا دن ہے اور اس دن تمام انسانوں کو حساب کتاب کے لیے اٹھایا جائے گا۔
مستشرقین کی تقلید: پرویز کی گمراہی کی جڑ
پرویز اپنی فکر میں مستشرقین کے اقوال کو بنیاد بناتا ہے۔ چنانچہ وہ ‘وہائٹ ہائڈ’ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے:
”یوم الحساب تو ہر آن ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے-“ (انسان نے کیا سوچا؟: ص٤١٣)
یہ تصور سراسر خلافِ قرآن ہے۔ پرویز نے مستشرقین کی رائے کو قرآن پر مقدم رکھتے ہوئے قرآنی مفاہیم کو بگاڑا اور تحریفِ معنوی کا ارتکاب کیا، جو کہ شدید گمراہی کی نشانی ہے۔
نتیجہ
پرویز کا تصورِ آخرت نہ صرف ناقص بلکہ صریحاً گمراہ کن ہے۔ اس نے قرآن کی بنیادی تعلیمات کے خلاف جا کر اخروی مفہوم کو دنیاوی مفادات سے جوڑ دیا ہے، جسے قرآنِ مجید کی واضح آیات اور مفسرین کی آراء مکمل طور پر رد کرتی ہیں۔ قیامت، حشر، اور اللہ سے ملاقات جیسے عقائد اسلام کے بنیادی ستونوں میں شامل ہیں، جن کا انکار کفر کے زمرے میں آتا ہے۔