قرآن کریم اور صحیح احادیث سے تین طرح کا وسیلہ ثابت ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا، دوسرے اپنے نیک اعمال کا اور تیسرے کسی زندہ نیک شخص کی دعا کا۔ لہٰذا وسیلے کی صرف یہی قسمیں جائز اور مشروع ہیں۔ باقی جتنی بھی اقسام ہیں، وہ غیر مشروع اور ناجائز و حرام ہیں۔ قرآن کریم سے کون سا وسیلہ ثابت ہے؟ اس بارے میں تو قارئین ’’وسیلہ اور قرآن کریم‘‘ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ صحیح احادیث اور فہم سلف کی روشنی میں بھی جائز وسیلے کے بارے میں یہی کچھ ثابت ہے، نیز وسیلے کی ممنوع اقسام کے بارے میں صریح ممانعت و نفی بھی موجود ہے۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں :
زندہ نیک شخص کی دعا کے وسیلے کا جواز
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقون .
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ دعا یوں کرتے تھے: اے اللہ ! بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا) کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعد ان) کے چچا (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں)، لہٰذا اب بھی تو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہو جاتی تھی۔ [صحيح البخاري:137/1،ح:1010]
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ھ) اس حدیث کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں :
وذلك أن التوسل به في حياته، ھو أنھم كانو يتوسلون به، أي يسألون أن يدعو الله، فيدعو لھم، ويدعون فيتوسلون بشفاعته ودعائه
وسیلہ کی یہ صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ میں اس طرح تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے دعا کی درخواست کرتے اور پھر خود بھی دعا کرتے۔ یوں اس طریقہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور وسیلہ حاصل کرتے تھے۔ [مختصر الفتاوي المصرية، ص:194]
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : ۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
ويستفاد من قصة العباس رضي الله عنه من استحباب الاستشفاع بأھل الخير وأھل بيت النبوة
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی والے لوگوں، اہل صلاح و تقویٰ اور اہل بیت سے سفارش کروانا مستحب ہے۔ [فتح الباري:497/2]
? بعض حضرات اس حدیث سے وسیلے کی ایک ناجائز قسم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے، کیونکہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا مشروع وسیلہ ہے۔ اگر فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو چھوڑ کر صحابہ کرام کبھی ایک امتی کی ذات کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ یوں معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صرف زندہ نیک لوگوں کی دعا کے وسیلے کا اثبات ہوتا ہے۔
? محدثین کرام اور فقہائے امت نے اس حدیث سے ذات کا نہیں بلکہ دعا کا وسیلہ مراد لیا ہے۔ جب اسلاف امت اس سے فوت شدگان کا وسیلہ مراد نہیں لیتے تو آج کے غیر مجتہد و غیر فقیہ اہل تقلید کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس حدیث کا ایک نیا معنی بیان کریں ؟
? تصریحات محدثین سے عیاں ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعا کرنے کا معنی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ کو اس دعا کا حوالہ دیا جاتا کہ اے اللہ ! تیرا نبی ہمارے حق میں تجھ سے دعا فرما رہا ہے، لہٰذا اپنے نبی کی دعا ہمارے بارے میں قبول فرما کر ہماری حاجت روائی فرما دے!
? کسی ایک ثقہ محدث یا معتبر عالم سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی ذات کا وسیلہ ثابت کرتا ہو۔
فائدہ نمبر ①
اللھم إنه لم ينزل بلاء الا بذنب، ولم يكشف إلا بتوبة، وقد توجه القوم بي إليك لمكاني من نبيك
”اے اللہ ! ہر مصیبت کسی گناہ کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ ہی اس سے خلاصی کا ذریعہ بنتی ہے۔ لوگوں نے میرے ذریعے تیری طرف رجوع کیا ہے، کیونکہ میں تیرے نبی کے ہاں مقام و مرتبہ رکھتا تھا۔“ [تاريخ دمشق لابن عساكر: 359،358/26، فتح الباري لابن حجر:497/2، عمدة القاري للعيني:32/7]
تبصرہ: لیکن یہ جھوٹی روایت ہے۔
اس کو گھڑنے والا محمد بن سائب کلبی ہے جو کہ ’’متروک‘‘ اور کذاب ہے۔
نیز اس میں ابوصالح راوی بھی ’’ضعیف‘‘ اور مختلط ہے۔ اس کی سند میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔
زبیر بن بکار کی بیان کردہ روایت کی سند نہیں ملی۔
فائدہ نمبر ②
اللھم إنا نتقرب إليك بعم نبيك ونستشفع به، فاحفظ فينا نبيك كما حفظت الغلامين لصلاح أبيھما
”اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے چچا کے ساتھ تیرا تقرب حاصل کرتے ہیں اور ان کی سفارش پیش کرتے ہیں۔ تو ہمارے بارے میں اپنے نبی کا اس طرح لحاظ فرما جس طرح تو نے والدین کی نیکی کی بنا پر دو لڑکوں کا لحاظ فرمایا تھا۔“ [الاستيعاب:92/3، التمھيد:434/23، الاستذكار:434/2]
تبصرہ: یہ بے سند ہے، لہٰذا قابل اعتبار نہیں۔
فائدہ نمبر ③
استسقي عمر ابن الخطاب عام الرمادة بالعباس بن عبدالمطلب، فقال : اللھم! ھذا عم نبيك العباس، نتوجه إليك به، فاسقنا، فما بر حوا حتي سقاھم الله قال : فخطب عمر الناس، فقال: أيھا الناس! إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرى للعباس ما يري الولد لوالده، يعظمه، ويفخمه، ويبر قسمه، فاقتدو أيھا الناس برسول الله صلى الله عليه وسلم في عمه العباس، واتخذوه وسيلة إلي الله عزوجل فيما نزل بكم
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت والے سال) میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کی۔ انہوں نے یوں فریاد کی : اے اللہ ! یہ تیرے ( مکرم) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (معزز) چچا عباس ہیں۔ ہم ان کے وسیلے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تو ہم پر بارش نازل فرما۔ وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بارش سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا ہے کہ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ فرمایا: اے لوگو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہی نظریہ رکھتے تھے، جو ایک بیٹا اپنے، باپ کے بارے میں رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا فرماتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرو۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔ [المستدرك للحاكم:334/3،ح5638، الاستيعاب لابن عبدالبر:98/3 ]
تبصرہ: اس روایت کی سند سخت ترین ’’ضعیف ‘‘ ہے۔
اس میں داؤد بن عطاء مدنی راوی ’’ضعیف ‘‘ اور ’’متروک ‘‘ ہے۔
اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ لفظ بھی ثابت نہیں۔
◈ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ليس بالقوي، ضعيف الحديث، منكر الحديث ”قوی نہیں ہے، ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے۔“
◈ نیز امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔ [الجرح و التعديل:421/3]
◈ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’منکر الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ [الضعفاء الكبير للعقيلي:35/2، وسنده صحيح]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔ [سوالات البرقاني للدارقطني:138]
◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ليس بشيء۔ ”یہ ناقابل التفات ہے۔“ [الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:241/3]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وفي حديثه بعض النكرة۔ ”اس کی حدیث میں کچھ بگاڑ موجود ہے۔“ [الكامل:87/3]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔ [تلخيص المستدرك:334/3]
? پھر ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس میں دعا کے وسیلے کا ذکر ہے اور دعا ہمارے نزدیک مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔
غرضیکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث میں جس وسیلے کا ذکر ہے، وہ صرف اور صرف دعا کا وسیلہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام نے ان سے یہ استدعا کی تھی کہ آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ان کی اس دعا کا حوالہ دیا کہ تیرے نبی کے چچا بھی ہمارے لیے دعاگو ہیں، لہٰذا ہماری فریاد کو سن لے۔ یہی مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔ اس حدیث سے قطعاً فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ :
◄ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں :
وهذا دعاء أقره عليه جميع الصحابة، ولم ينكره أحد مع شهرته، وهو من أظهر الإجماعات الإقرارية، ودعا بمثله معاوية بن أبي سفيان في خلافته، لا استسقي بالناس، فلو كان توسلهم بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد مماته كتوسلهم به في حياته، لقالوا: كيف نتوسل بمثل العباس ويزيد بن الأسود ونحوهما؟ ونعدل عن التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم الذي هو أفضل الخلائق، وهو أفضل الوسائل وأعظمها عند الله؟ فلما لم يقل ذلك أحد منهم، وقد علم أنهم في حياته إنما توسلوا بدعائه وشفاعته، وبعد مماته توسلوا بدعاء غيره، وشفاعة غيره، علم أن المشروع عندهم التوسل بدعاء المتوسل به، لا بذاته
”یہ ایسی دعا ہے جس پر سب صحابہ کرام نے خاموشی اختیار کی، حالانکہ یہ مشہور و معروف واقعہ تھا، یوں یہ ایک واضح سکوتی اجماع ہے۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کے ساتھ دعاء استسقاء کی تو اسی طرح دعا فرمائی۔ اگر صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح آپ کا وسیلہ لیتے جس طرح آپ کی زندگی میں لیتے تھے، تو وہ ضرور کہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کا کیونکر وسیلہ دیں اور ان کے وسیلے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کے برابر کر دیں جو کہ ساری مخلوقات سے افضل اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ جب صحابہ کرام میں سے کسی نے ایسا نہیں کہا اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وہ آپ کی دعا اور سفارش کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ کسی اور کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، تو ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک نیک شخص کی دعا کا وسیلہ جائز تھا، اس کی ذات کا نہیں۔“ [مجموع الفتاوٰي:285،284/1]
◄ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (م : ۷۳۱۔۷۹۲ ھ) فرماتے ہیں :
وإنما كانوا يتوسلون في حياته بدعائه، يطلبون منه أن يدعو لهم، وهم يؤمنون على دعائه، كما في الاستسقاء وغيره، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر رضي الله عنه – لما خرجوا يستسقون -: اللهم ! إنا كنا إذا أجدبنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا. معناه: بدعائه ھو ربه، وشفاعته، وسؤاله، ليس المراد أنا نقسم عليك به, أو نسألك بجاهه عندك, إذ لو كان ذلك مراداً، لكان جاه النبي صلى الله عليه وسلم أعظم وأعظم من جاه العباس
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعا کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، یعنی آپ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ کی دعا پر آمین کہتے تھے۔ استسقاء (بارش طلبی کی دعا) وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا: اے اللہ ! پہلے ہم جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے تو اپنے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔ اب ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں۔ یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تجھ سے ہمارے لیے دعا و سفارش کریں گے۔ آپ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی قسم دی جائے یا ان کے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا جائے۔ اگر یہ طریقہ جائز ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و منزلت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ شان و منزلت سے بہت بہت زیادہ تھی۔۔۔“ [شرح العقيدة الطحاوية، ص:۲۳۸،۲۳۷]
◄ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (م : ۱۲۹۲۔۱۳۵۲ ھ) لکھتے ہیں :
قوله: اللھم! كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم، ليس فيه التوسل المعھود الذي يكون بالغائب حتي قد لا يكون به شعور أصلا، فيه توسل السلف، وھو أن يقدم رجلا ذاوجاھة عند الله تعالىٰ ويأمره أيدعو لھم، ثم يحيل عليه في دعائه، كما فعل بالعباس رضي الله عنه عم النبي صلى الله عليه وسلم، ولو كان فيه توسل المتأخرين لما احتاجوا إلي إذھاب العباس رضي الله عنه معھم ولكفي لھم التوسل بنبيھم بعد وفاته أيضا، أو بالعباس رضي الله عنه مع عدم شھوده معھم
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کے موقع پر دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہم پہلے تجھے اپنے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے …. ان الفاظ میں اس رائج طریقہ توسل کا ذکر نہیں جس میں کسی غائب شخص کا وسیلہ دیا جاتا ہے جسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا وسیلہ پکڑ رہا ہے۔ اس حدیث میں تو سلف صالحین کے طریقہ توسل کا اثبات ہے۔ سلف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی مقرب الٰہی شخص کو آگے کرتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں۔ پھر وہ اس سفارش کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ اگر اس حدیث میں بعد والے لوگوں کے وضع کردہ طریقہ توسل کا ذکر ہوتا تو پھر صحابہ کرام کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور ان کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ہی کا وسیلہ کافی ہوتا یا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے نام کا وسیلہ دے دیا جاتا۔“ [فيض الباري:379/2]
? ثابت ہوا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث سے توسل بالذات والاموات کا بالکل اثبات نہیں ہوتا۔
2 Responses
جزاکم اللہ بہت علمی مضمون ہے
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ بہت عمدہ دلائل پیش کیے ہیں اور بہت ہی محققانہ طریقے سے اللہ تعالیٰ آپکی محنتوں کو قبول و منظور فرمائے آمین