قیام اللیل اور وتر پڑھنے کا مکمل مسنون طریقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر پڑھنے کا معمول
گیارہ رکعت قیام اللیل:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
’’نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے۔ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی فی اللیل ۶۳۷.)
رات کی نماز کی عمومی ہدایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہے۔ جب صبح (صادق) ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو، یہ (ایک رکعت، پہلی ساری) نماز کو طاق بنا دے گی۔‘‘
(بخاری، الوتر، باب ما جاء فی الوتر، ۰۹۹ ومسلم، ۹۴۷)
قیام اللیل کی ابتدا کیسے کی جائے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم رات کو نوافل پڑھنا شروع کرو تو پہلے دو ہلکی رکعتیں ادا کرو۔‘‘ (مسلم، صلاۃ المسافرین : ۸۶۷.)
رات کی نماز کا تفصیلی طریقہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام یوں ہوتا تھا:
آپ پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھتے، پھر دو طویل رکعتیں، پھر ان سے ہلکی، پھر دوبارہ دو طویل رکعتیں، پھر ان سے بھی ہلکی، اس طرح کرتے کرتے آخر میں دو رکعتیں اور پھر ایک وتر پڑھتے۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ، حدیث ۵۶۷.)
رکعتوں کی تعداد میں تنوع:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کبھی سات، کبھی نو اور کبھی گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔”
(بخاری، التہجد، باب کیف صلاۃ النبی V ۹۳۱۱.)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تفصیلی روایت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر کا انداز:
سعد بن ہشام کے سوال پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا:
"میں مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتی، جب اللہ چاہتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے، مسواک کرتے، وضو فرماتے اور نو رکعت نماز (وتر) پڑھتے۔ آٹھویں رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھتے، پھر بغیر سلام کے کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے، اس میں دعا اور تشہد مکمل کرتے اور پھر سلام پھیرتے۔ عمر رسیدہ ہونے پر آپ سات رکعتیں پڑھتے۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل، ۶۴۷.)
اہم نکات:
◈ نو رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ۔
◈ صرف آٹھویں رکعت پر تشہد، باقیوں میں قعدہ نہیں۔
◈ آخر میں مکمل تشہد، درود اور دعا۔
پانچ، تین اور ایک وتر کی اجازت
عمومی ہدایت:
سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے۔ پس جو شخص پانچ رکعات وتر پڑھنا چاہے تو (پانچ) رکعات پڑھے اور جو کوئی تین رکعات وتر پڑھنا چاہے تو (تین رکعات) پڑھے اور جو کوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے تو (ایک) رکعت (وتر) پڑھے۔‘‘
(ابو داود، الوتر، باب کم الوتر؟ ۲۲۴۱۔ ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الوتر بثلاث و خمس و سبع و تسع، ۰۹۱۱۔ امام حاکم، امام ذہبی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
پانچ رکعت وتر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعت وتر اس طرح پڑھتے کہ:
"ان رکعتوں میں کہیں بھی قعدہ نہ ہوتا سوائے آخر میں۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی V فی اللیل، ۷۳۷.)
تین رکعت وتر کی قراءت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، دوسری میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ اور تیسری میں قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ (الْفَلَقِ) اور (النَّاس) پڑھتے تھے۔”
(ترمذی: الصلاۃ، باب: ما جاء ما یقرأ فی الوتر: ۳۶۴۔ امام ذہبی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
مغرب سے مشابہت کی ممانعت
تین رکعت وتر میں مغرب سے اجتناب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین وتر نہ پڑھو، پانچ یا سات وتر پڑھو اور مغرب کی مشابہت نہ کرو۔‘‘
(دار قطنی، الوتر، باب لا تشبہوا الوتر بصلاۃ المغرب ۲/۵۲، ۷۲، حاکم، ذہبی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
دو + ایک طریقہ:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرتے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھتے۔”
(ابن حبان، ۸۷۶۔ حافظ ابن حجر نے اسے قوی کہا ہے۔)
ایک رکعت وتر
الگ ایک وتر کا ثبوت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے۔”
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الوتر برکعۃ: ۷۷۱۱، امام بوصیری نے اسے صحیح کہا۔)
"آپ دو رکعتوں اور ایک وتر کے درمیان بات چیت بھی کیا کرتے تھے۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۲۶۹۲.)
صحابہ کی تائید:
جب سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک رکعت وتر ادا کی، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
"درست کام کیا، وہ فقیہ اور صحابی ہیں۔”
(بخاری، فضائل الصحابۃ، باب: ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ: ۵۶۷۳.)
امام مروزی کا قول:
"وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر کر ایک رکعت الگ پڑھنے والی احادیث زیادہ مستند ہیں۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:
"وتر آخر رات میں ایک رکعت ہے۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی، ۲۵۷.)
ایک رات میں دوبارہ وتر پڑھنے کی ممانعت
واضح ہدایت:
سیّدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک رات میں وتر کی نماز دو دفعہ نہیں ہے۔”
(ابو داود: الوتر، باب: فی نقض الوتر ۹۳۴۱۔ ابن خزیمہ (۱۰۱۱) اور امام ابن حبان (۱۷۶) نے صحیح اور حافظ ابن حجر نے حسن کہا۔)
نفل کی اجازت:
وتر کے بعد نفل ادا کیے جا سکتے ہیں، مگر وتر دہرانا جائز نہیں۔
وتر کی قضا کا حکم
وتر بھولنے یا سو جانے پر:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر کوئی شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا بھول جائے تو جب بھی یاد آئے یا جاگ آئے تو وتر ادا کر لے۔”
(أبو داود: الوتر، باب: فی الدعاء بعد الوتر ۱۳۴۱۔ امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
فضیلتِ قضا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص کوئی وظیفہ یا عمل چھوڑ دے اور فجر سے ظہر کے درمیان مکمل کرے تو اُسے رات ہی کے وقت کا اجر ملے گا۔”
(مسلم: صلاۃ المسافرین، باب: جامع صلاۃ اللیل ومن نام عنہ أو مرض ۷۴۷.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"جب نیند یا بیماری کے باعث قیام ممکن نہ ہوتا تو آپ دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے۔”
(مسلم، الصلاۃ، جامع صلاۃ اللیل، ۶۴۷.)
عمل کی مداومت:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو مستقل ہو، چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔”
(بخاری، الرقاق، باب القصد و المداومۃ علی العمل، ۴۶۴۶۔ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ۲۸۷.)
رات کے قیام کو ترک نہ کرنے کی نصیحت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے عبد اللہ! تو اس شخص کی طرح نہ ہو جانا جو پہلے رات کا قیام کرتا تھا، پھر چھوڑ دیا۔‘‘
(بخاری، التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام للیل لمن کان یقوم ۲۵۱۱، مسلم: الصیام، باب: النہی عن صوم الدہر: ۹۵۱۱.)