نماز وتر کا وقت اور تہجد میں قراءت
نماز وتر کا وقت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف اوقات میں وتر کی ادائیگی
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر اول شب میں، بیچ میں اور آخر میں سب وقت ادا کئے ہیں۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی فی اللیل ۵۴۷)
وتر کی ادائیگی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جسے خطرہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا وہ اول شب ہی وتر پڑھ لے پھر سو جائے۔ اور جس کو یقین ہو کہ وہ رات کو اٹھ جائے گا وہ آخر میں وتر پڑھے اس لیے کہ آخر رات کی قرأت میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب: من خاف أن لا یقوم من أخر اللیل فلیُوتر أولہُ: ۵۵۷)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ہدایت
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
"جو رات کو نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وتر کو سب سے آخر میں ادا کرے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی حکم فرماتے تھے۔”
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء في الوتر اول اللیل، ۲۰۲۱)
ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی وتر پڑھنے کا وقت
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
"تم کس وقت وتر کی نماز ادا کرتے ہو؟”
انہوں نے کہا: "عشاء کی نماز کے بعد، رات کے ابتدائی حصے میں۔”
پھر آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
"تم کب وتر پڑھتے ہو؟”
انہوں نے کہا: "رات کے پچھلے پہر۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ابو بکر! تم نے مضبوط کڑا پکڑ لیا، اور عمر! تم نے قوت کو اختیار کیا۔”
(مسلم: ۱۵۷)
اذان کے دوران وتر مکمل کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب وتر پڑھتے ہوئے اذان شروع ہو جائے تو نماز مکمل کر لینی چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول ۹۴۴)
اگر وتر کا وقت گزر جائے؟
سیدنا اغر مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:
"اے اللہ کے نبی! میں صبح کے وقت جاگا تو وتر کا وقت ختم ہو چکا تھا۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وتر رات کی نماز ہے۔”
اس نے پھر کہا:
"اے اللہ کے نبی! میں صبح کے وقت جاگا تو وتر کا وقت ختم ہو چکا تھا۔”
آپ نے فرمایا:
"وتر پڑھ لو۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۲۱۷۱)
تہجد میں قراءت
سری اور جہری قراءت کا استعمال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے نوافل میں:
◈ کبھی سری (آہستہ)
◈ کبھی جہری (بلند آواز سے)
قراءت فرماتے تھے۔
(ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی قراءۃ باللیل، ۸۴۴۔ ابن ماجہ، إقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ اللیل، ۴۵۳۱)
نوافل کی قراءت گھر میں سنائی دینا
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں نوافل ادا کرتے تھے، تو حجرے میں آپ کی قراءت کی آواز سنی جاتی تھی۔
(ابو داود، التطوع، باب رفع الصوت بالقراءۃ فی صلاۃ اللیل، ۷۲۳۱)
حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی قراءت کا انداز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات باہر نکلے اور دیکھا:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آہستہ آواز میں نوافل پڑھ رہے ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بلند آواز سے نوافل کی قراءت کر رہے ہیں۔
جب وہ دونوں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے:
آپ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"اے ابوبکر! رات میں تیرے پاس سے گزرا تو پست آواز سے نوافل پڑھ رہا تھا؟”
انہوں نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! جس (اللہ) سے میں سرگوشی کر رہا تھا، اس تک میری آواز پہنچ رہی تھی۔”
پھر آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"رات میرا تیرے پاس سے گزر ہوا، تو اونچی آواز کے ساتھ نفل پڑھ رہا تھا؟”
انہوں نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! میں سوئے ہوؤں کو بیدار کرنا چاہتا تھا (کہ وہ بھی تہجد پڑھیں) اور شیطان کو بھگانے کا ارادہ رکھتا تھا۔”
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
◈ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ذرا اونچی آواز سے
◈ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ذرا نیچی آواز سے
پڑھنے کا حکم دیا۔
(ابو داود: حدیث ۹۲۳۱۔ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا)