نیک اعمال کی قبولیت سے مشکلوں کا حل
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

« باب إجابة دعا، لمن بروالديه »
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے

✿ « عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينما ثلاثة نفر يتماشون اخذهم المطر فمالوا إلى غار فى الجبل فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فاطبقت عليهم، فقال بعضهم لبعض: انظروا اعمالا عملتموها لله صالحة، فادعوا الله بها لعله يفرجها، فقال احدهم: اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي صبية صغار كنت ارعى عليهم، فإذا رحت عليهم فحلبت بدات بوالدي اسقهما قبل ولدي، وإنه ناء بي الشجر فما اتيت حتى امسيت فوجدتهما قد ناما، فحلبت كما كنت احلب فجئت بالحلاب فقمت عند رءوسهما، اكره ان اوقظهما من نومهما، واكره ان ابدا بالصبية قبلهما والصبية يتضاغون عند قدمي، فلم يزل ذلك دابي ودابهم حتى طلع الفجر، فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرى منها السماء، ففرج الله لهم فرجة حتى نري منها السماء، ففرج الله لهم فرجة حتي يرون منها السماء وقال الثاني: اللهم إنه كانت لي ابنة عم احبها كاشد ما يحب الرجال النساء فطلبت إليها نفسها فابت حتى آتيها بمائة دينار فسعيت حتى جمعت مائة دينار فلقيتها بها، فلما قعدت بين رجليها قالت: يا عبد الله اتق الله، ولا تفتح الخاتم فقمت عنها، اللهم فإن كنت تعلم اني قد فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها ففرج لهم فرجة، وقال الآخر: اللهم إني كنت استاجرت اجيرا بفرق ارز فلما قضى عمله قال اعطني حقي فعرضت عليه حقه فتركه ورغب عنه، فلم ازل ازرعه حتى جمعت منه بقرا وراعيها، فجاءني فقال: اتق الله ولا تظلمني واعطني حقي، فقلت: اذهب إلى ذلك البقر وراعيها، فقال: اتق الله ولا تهزا بي، فقلت: إني لا اهزا بك فخذ ذلك البقر وراعيها فاخذه فانطلق بها، فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي ففرج الله عنهم.» [متفق عليه: رواه البخاري 5974، ومسلم 2743. واللفظ للبخاري.]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ پیدل جارہے تھے۔ بارش نے ان کو گھیر لیا، انھوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ پہاڑ کی چٹان لڑھک کر غار کے منہ پر آبیٹھی اور اس نے ان پر غار کے دہانے کو بند کر دیا تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : دیکھو ! تم لوگ اپنے ان نیک اعمال کا جائز لو جو تم نے خالص اللہ کے لیے انجام دیے ہیں، پھر ان کے وسیلے سے اللہ سے دعا مانگو، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پتھر کو ہٹا دے۔ تو ان میں سے ایک شخص نے دعا کی : اے اللہ ! میرے بوڑے ماں باپ تھے، اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے، میں بکریاں چرایا کرتا تھا، جب میں شام کو گھر لوٹتا تو ان بکریوں کا دودھ دوہ کر سب سے پہلے اپنے والدین کی خدمت میں پیش کرتا اور اپنی اولاد سے پہلے ان دونوں کو پلا کر سیراب کرتا تھا۔ ایک دن میں درختوں کی تلاش میں بہت دور نکل گیا۔ پھر میرے لوٹ کر آنے تک شام ہو چکی تھی۔ میں نے اپنے والدین کو سویا ہوا پایا، میں نے دودھ دوہا جیسے روزانہ دوہا کرتا تھا۔ پھر اسی دوہے ہوئے دودھ کو لے کر میں اپنے والدین کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ مجھے ان کو نیند سے بیدار کرنا بھی ناگوار تھا اور میں اس بات کو بھی ناپسند کرتا تھا کہ ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں جب کہ بچے میرے قدموں کے پاس لوٹ رہے تھے۔ برابر میرا حال وہی رہا اور ان کا بھی، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر (اے اللہ) تو جانتا ہے کہ یہ عمل میں نے خالص تیری خوشنودی کے لیے کیا ہے تو ہمارے لیے اتنی کشادگی پیدا فرما دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں تو اللہ نے ان کے لیے چٹان اس قدر سرکا دی کہ وہ اس سے آسمان کو دیکھنے لگے۔ اور دوسرے نے یوں دعا کی: اے اللہ میری ایک چچازاد بہن تھی، میں اس سے بہت لگاؤ رکھتا تھا جیسے عام طور پر مرد، عورتوں کی طرف شدید میلان رکھتے ہیں۔ میں نے اس سے اپنی خواہش نفس کی تکمیل کا مطالبہ کیا اس نے انکار کر دیا (اور کہا کہ) میں اس کو سو دینار ادا کر دوں۔ میں نے بڑی کوششوں سے سو دینار جمع کیے۔ پھر انھیں لے کر اس سے ملاقات کی۔ پھر جب میں اس کے پیروں کے آگے بیٹھ گیا تو اس نے کہا: اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر، اور اس مہر کو نہ کھول۔ پس میں اس کے پاس سے اٹھ گیا، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ وہ کام میں نے خالص تیری رضا مندی کے لیے کیا ہے تو تو اس چٹان کو ہم پر سے ہٹا دے، تو ان کے لیے کچھ اور کشادگی اللہ نے پیدا فرما دی۔ اور تیسرے نے کہا: اے الله میں نے ایک آدمی کو مزدوری پر رکھا۔ چند سیر چاول پر، پھر جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو کہا : مجھے میرا حق دیجیے تو میں نے اس کو اس کا حق دے دیا۔ اور اس نے اپنا حق چھوڑ دیا اور اس سے منہ پھیر کر چلا گیا۔ پھر میں اس غلے کو برابر بوتا رہا، یہاں تک کہ میں نے اس سے گائے اور اس کے چرواہے خریدے۔ پھر وہ شخص (ایک مدت بعد) میرے پاس آیا۔ پھر اس نے کہا: اللہ سے ڈرو اور مجھ پر ظلم نہ کرو، اور مجھے میرا حق دے دو، میں نے کہا: ان گایوں اور ان کے چرواہے کے پاس جاؤ، تو اس نے کہا: اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا: میں تمھارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا ہوں، تم ان گایوں اور ان کے چرواہے کو لے لو۔ وہ شخص انھیں لے کر چل پڑا۔ اے الله ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضامندی کے لیے کیا تھا تو غار کا جو بند دہانا رہ گیا ہے تو اس کو کھول دے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے(اس چٹان کو)ہٹا دیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے