نماز میں جمائی کس کی طرف سے ہے؟
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النبى من قَالَ: النَّتَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِذَا نَشَاءَ بَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمُ مَا اسْتَطَاعَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز میں جمائی شیطان کی طرف سے ہے، پس جب تم میں سے کوئی جمائی لے، تو حسب استطاعت اس کو رو گے ۔“
تحقیق و تخریج:
یہ حدیث صحیح ہے ۔ ترمذی: 370 ۔ امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ مسلم: 2994، بخاری: 3289 ۔
فوائد:
➊ جمائی سستی کی علامت ہوتی ہے سستی شیطان کا پر کیف حملہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسانی اعضاء جامد ہو کر رہ جاتے ہیں منہ کھلنے کو آتا ہے ۔
➋ جمائی آ سکتی ہے لیکن اس کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ منہ اگر کھل نہ پائے تو بہتر ہے ورنہ ہاتھ سے منہ کو ڈھانپنا چاہیے اس کے کئی فوائد ہیں ایک تو جمائی والے آدمی کاسانس دوسرے آدمی کو متاثر نہیں کرتا دوسرا اگر معدے کی خرابی کی وجہ سے منہ سے بو آتی ہے تو وہ دوسرے شخص کو متنفر نہیں کرتی ۔
➌ جمائی لیتے ہوئے منہ زیادہ کھولنے سے منہ کا جبڑا خراب ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح جمائی کے وقت آوازیں نکالنا احمقانہ عمل ہے ۔ اس کا بڑانقصان یہ ہے کہ دوسرے حضرات بھی جمائی لینی شروع کر دیتے ہیں جس سے سستی کی فضاجنم لیتی ہے یہ غیر شرعی ہے ۔
➍ نماز میں تو خاص کر جمائی کے وقت آواز نکالنا منع ہے جمائی کو پی جانا بالکل جمائی نہ آنے دینا بہت اچھی عادت ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: