نماز میں ترتیب مراتب کا خیال رکھنا ضروری ہے
وَعَنْ أَبِي بَكْرِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمُنِي دُعَاءُ أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ: قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةٌ مِنْ عِندِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک ایسی دعا سکھلائیے جو میں اپنی نماز میں مانگوں آپ نے فرمایا: ”یوں کہو ! قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةٌ مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ الہی میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا ، مجھے اپنے فضل و کر م سے بخش دے ، مجھ پر رحم کر، بلاشبہ تو بخشنے والا مہربان ہے ۔ “ متفق علیہ
تحقيق و تخریج:
بخاری: 834، 6326، 7387، 7388، مسلم: 2705، بخاری ”باب الدعاء قبل ال سلام“
فوائد:
➊ نماز میں ترتیب مراتب کا خیال رکھا جائے یعنی ابتداء اللہ تعالیٰ کی تقدیس و تحمید سے ہو بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلامتی
بھیجی جائے پھر بعد میں نمازی جو چاہیے دعا مانگ سکتا ہے ۔ چاہے سے مراد جائز دعا ہے ۔ موت کی دعا مانگنا وغیرہ جائز نہیں ہے ۔
➋ تشہد فرض ہے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی بھیجنا بھی فرض ہے ۔ جو جلدی میں درود نہیں بھیجتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
➌ منقول درود پڑھنا چاہیے جو درود غیر منقول ہو اور معنی بھی درست نہ ہوں تو اس کا پڑھنا غیر شرعی ہے ۔
➍ چار چیزوں سے پناہ مانگنا عذاب جہنم عذاب قبر حیات و ممات کے فتنہ اور دجال کے فتنہ سے، ان کے علاوہ گناہ اور قرض ۔ سے پناہ مانگنا بھی حدیث سے ثابت ہے ۔
➎ گناہ کرنا یہ اپنے نفس پر ظلم ہوتا ہے ۔ مومن کا یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ اللہ غافر الذنب ذات ہے ۔ وہ سبھی مہربانوں سے بڑھ کر مہربان رب ہے ۔
➏ اپنے امام، دوست، محسن سے کسی چیز کے سیکھنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے محسن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اسی طرح اپنے رفقاء و احباب کے پاس جانا ملنے یا کام کی غرض سے درست ہے ۔ ایسے ہی اکٹھے بیٹھنا اور مسائل پر بحث و مباحثہ کرناجائز ہے ۔
➐ ٹھہر کر سوچ سمجھ کر جواب دینا ایک مدبر استاد کا امتیاز ہوتا ہے جواب دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے استاد سے حقائق کے انکشاف کے لیے سوال کیے جا سکتے ہیں ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل