نماز جنازہ میں دعائیں
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

نماز جنازہ میں دعائیں
سوال : کیا نماز جنازہ میں اپنے مسلمان بھائی کے لیے ایک سے زیادہ دعائیں کی جا سکتی ہیں؟
جواب : جب کوئی موحد مسلمان فوت ہو جائے تو اس کی نمازِ جنازہ ادا کرنا دوسرے مسلمانوں پر حق ہے اور نمازِ جنازہ میں اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
«اذا صليتم على الميت فانخلصو له الدعاء» [ابوداؤد، كتاب الجنائز : باب الدعا للميت 3199 ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب الدعا فى الصلاة 1497، بيهقي 40/4، صحيح ابن حبان 754]
”جب تم میت کی نمازِ جنازہ پڑھنے لگو تو اس کے لیے اخلاص سے دعا کرو۔“
اسی طرح ابوامامہ بن سہل رحمہ اللہ سے روایت ہے :
«السنة فى الصلاة على الجنازة ان تكبر ثم تقرأ بأم القرآن ثم تصلي على النبى صلى الله عليه وسلم ثم تخلص الدعاء للميت ولا تقرأ الا فى التكبيرة الأولٰي ثم تسلم فى نفسه عن يمينه » [المنتقي لا بن الجارود 540، عبد الرزاق 6428، مستدرك حاكم 360/1، بيهقي 39/3]
”نمازِ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تم تکبیر کہو، پھر سورۂ فاتحہ پڑھو (پھر دوسری تکبیر کہو) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو (پھر تیسری تکبیر کہو) پھر میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو اور پہلی تکبیر کے علاوہ کسی میں قرأت نہ کرو (پھر چوتھی تکبیر کہو) پھر اپنی دائیں جانب آہستہ سے سلام پھیر دو۔“
ان دونوں صحیح احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازِ جنازہ میں میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنی چاہیے اور لفظ «الدعا» مصدر ہے اس کا اطلاق قلیل و کثیر پر ہوتا ہے، لہٰذا ایک سے زیادہ دعائیں بھی جنازے میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے عام بھائی نمازِ جنازہ میں یہ دعا پڑھتے ہیں :
« اللهم اغفر لحينا وميتنا، وشاهدنا وغائبنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وانثانا، اللهم من احييته منا فاحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان، اللهم لا تحرمنا اجره ولا تضلنا بعده» [ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب الدعا فى الصلاة 1498، بيهقي 40/4، مسند أحمد 8809، صحيح ابن حبان 857]
’’ اے اللہ ! ہمارے زندہ اور مردہ، حاضر اور غائب، چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت کو بخش دے ـ اے اللہ ! ہم میں سے جسے بھی تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے بھی فوت کرے اسے ایمان پر فوت کر۔ اے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر۔“
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ دعا عام ہے، میت کے لیے خاص نہیں ہے اس میں زندہ مردہ، مرد عورت، چھوٹے بڑے، حاضر غائب سب کے لیے دعا ہے اور ہمیں خاص میت کے لیے بھی دعا کا حکم ہے تو لامحالہ اس دعا کے ساتھ خاص میت کی بخشش والی دعا بھی مانگنی پڑے گی جیسا کہ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کی روایت میں دعا موجود ہے :
«اللهم اغفر له وارحمه، وعافه واعف عنه، واكرم نزله ووسع مدخله، واغسله بالماء والثلج والبرد، ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الابيض من الدنس، وابدله دارا خيرا من داره، واهلا خيرا من اهله، وزوجا خيرا من زوجه، وادخله الجنة واعذه من عذاب القبر، او من عذاب النار» [مسلم، كتاب الجنائز : باب الدعا للميت فى الصلاة 963]
”اے اللہ ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے اور اس سے درگزر فرما، اس کی مہمان نوازی کر، اس کی قبر کو فراخ کر دے، اس کے گناہوں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو دے۔ اسے گناہوں سے ایسے صاف کر دے جیسے تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کر دیا ہے، اسے اس کے گھر کے بدلے میں زیادہ بہتر گھر عطا فرما، اس کے گھر والوں کے بدلے میں زیادہ بہتر گھر والے عطا فرما اور اس کی بیوی کے بدلے میں اسے زیادہ بہتر بیوی عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور اسے قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے بچا۔“
شداد بن الھاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کے تابع ہو گیا، پھر کہنے لگا : ”میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابہ کو تائید فرمائی۔ جب ایک جنگ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ غنیمت حاصل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تقسیم کر دیا، اس کا بھی حصہ نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا۔ وہ ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا، جب آیا تو انہوں نے اس کا حصہ اسے دیا۔ وہ پوچھنے لگا : ”یہ کیا ہے ؟“ اس کے ساتھی نے کہا: ”تمہارا حصہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے نکالا ہے۔“ اس دیہاتی نے اپنا حصہ لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہنے لگا : ”یہ کیا ہے ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے مالِ غنیمت سے تمہارا حصہ نکالا ہے۔“ وہ کہنے لگا : ”میں اس کے لیے آپ کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے آپ کے پیچھے لگا ہوں کہ مجھے (اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہاں تیر لگے تو میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر تم اللہ سے سچ کہو گے تو اللہ بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا۔“ تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ دشمن سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور شہید ہو گیا، اسے اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔“ اس کو وہیں تیر لگا تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا یہ وہی ہے ؟“ صحابہ نے عرض کیا : ”جی ہاں !“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس نے اللہ تعالیٰ سے سچ کہا: تو اللہ نے اس سے سچ کا سلوک کیا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خود اپنے جبے میں کفن دیا اور سامنے رکھ کر اس پر جنازہ پڑھا :
«فكان فيما ظهر من صلاته: اللهم هذا عبدك خرج مهاجرا فى سبيلك فقتل شهيدا انا شهيد على ذلك » [نسائي، كتاب الجنائز : باب الصلاة على الشهداء 1952، مستدرك حاكم 595/3، بيهقي 15/4، السنن الكبريٰ للنسائي 2080، شرح معاني الآثار 2818، 35/2]
”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند ایک یہ تھے : ”اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے، تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، پس شہید ہو کر قتل ہوا، میں اس بات پر گواہ ہوں۔“
اس حدیث میں بھی «فكان مما ظهر من صلاته» قابلِ توجہ الفاظ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں سے جو الفاظ ظاہر ہوئے، وہ صحابی نے بیان کر دیے۔ معلوم ہوا اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی جو ظاہر نہیں ہوئی۔ لہٰذا نمازِ جنازہ میں متعدد دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں۔
یزید بن رکانہ بن مطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
« كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام للجنازة ليصلي عليها قال اللهم عبدك و ابن امتك احتاج الٰي رحمتك وانت غني عن عذابه ان كان محسنا فزد فى حسناته وان كان مسئا فتجا وز عنه، ثم يدعو ما شا ء الله ان يدعو » [طبراني كبير 249/22، 647، مجمع الزوائد 4167، 140/3، الإصابة 515/6]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا فرماتے : ”اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیری بندی کا بیٹا ہے، تیری رحمت کا محتاج ہو گیا ہے اور تو اس کو عذاب دینے سے بے پروا ہے، اگر یہ احسان کرنے والا تھا تو اس کی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اگر گناہ گار تھا تو اس سے درگزر فرما۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد جو اللہ چاہتا دعا کرتے۔“
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازے میں کئی دعائیں مانگتے تھے ـ اس حدیث کے آخری الفاظ ’’ پھر اس کے بعد جو اللہ چاہتا دعا کرتے۔“ اس مسئلے میں صریح نص ہیں ـ مذکورہ بالا صحیح دلائل سے یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ مسلمان موحد کا جنازہ پڑھتے وقت ایک سے زائد دعائیں مانگی جا سکتی ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عمل سے یہ ثابت ہے اور شرعاً بالکل صحیح اور درست ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!