مضمون کے اہم نکات:
نذر ماننے والے کی اہلیت وشرائط
نذر کسی غیر واجب کام کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا ہے۔
اس لیے نذر ماننے والے کی اہلیت کی شرائط وہی ہیں جو عبادت کے لیے مکلف شخص کی شرائط ہیں یعنی :
٭عقل ——
٭بلوغ——
٭اسلام ——
٭اگر مال کے متعلق نذر مانی ہو تو اس کی شرط
”آزادی “بھی ہے کیوں کہ غلام کا مال پر اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
➊ اگر نابالغ یا پاگل منت مان لے تو اس پرنذر کا پورا کرنا واجب نہیں ہے۔
➋ نذر ان تمام الفاظ سے ہو جاتی ہے جو وجوب پر دلالت کرتے ہوں جیسے :
٭ مجھ پر اللہ کے لیے یہ کام لازم ہے۔
٭ میں منت مانتا ہوں یا نذر مانتا ہوں۔
٭ میرا اللہ سے وعدہ ہے کہ فلاں کام کروں گا۔
نذر کی شرائط
➊ جس کام کی نذر مانی ہے وہ نفل یا مستحب ہو۔
➋ جس کام کی نذر مانی ہے وہ واجب نہ ہو۔ مثلاً :
* پانچ فرض نمازیں،
*رمضان کے روزے،
* ماں باپ کی خدمت وغیرہ۔
➌ جس کام کی نذر مانی ہے وہ شریعت اسلامی میں ممنوع و حرام نہ ہو۔
➍ جس کام کی نذر مانی ہے اس کے ادا کرنے کی صلاحیت اور استطاعت اپنے اندر موجود ہو۔
نذر اللہ سے کیا جانے والا ایک وعده
نذر یا منت ایک وعدہ ہے جو الله تعالی سے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تمام وعدوں کی نسبت اس وعدے کو پورا کرنا زیادہ اہم اور قابل ترجیح ہے۔ اگرچہ عہد کوئی بھی ہو اسے پورا کرنا مسلمان پرلازم ہے۔
ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ
”اے ایمان والو! اپنے وعدے پورے کیا کرو۔ “ [المائده:1 ]
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ﴿٣٤﴾
اور عہد پورا کرو بے شک عہد کے تعلق سوال کیا جائے گا۔ [اسرا:34 ]
نذر ماننے میں قسم کھانے کا مفہوم خود بخود شامل ہے لہٰذا یہ ایک ایسا وعدہ ہے جس کے متعلق قسم کھائی جاتی ہے کہ اسے ضرور پورا کروں گا۔
نذر پوری نہ کرناسخت گناه
? سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خيركم قرني ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم
” تم میں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں (یعنی صحابہ کرام) پھر جو ان کے بعد (تابعین ) ہیں پھر جو ان کے بعد (تبع تابعین) ہیں۔ “
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا ثم الذين يلونهم دو بار فرمایا یا تین بار۔ پھر فرمایا : ثم يجي قوم ينذرون ولا يفون ويخنون ولا يوتمنون، ويشهدون ولا يستشهدون ويظهر فيهم السمن
” پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نذریں مانیں گے اور پوری نہیں کریں گے اور خیانت کریں گے وہ امانت دار نہیں ہوں گے اور بغیر گواہی چاہے گواہی دیں گے اور ان میں موٹاپا پھوٹ پڑے گا(حرام مال کھانے کی وجہ سے۔ “
[بخاري، كتاب الايمان والنذور : 6695، 2651 ]
نذر (منت) فرض یا نفل :
نذر ماننا یا منت ماننا ی طرح ایک عبادت ہے جس طرح :
٭ صدقہ کرنا،
٭قربانی کرنا،
٭نفلی روزہ رکھنا،
٭ نفل نماز پڑھنا وغیرہ عبادات ہیں،
ارشاد ہے:
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
”تم جتنا خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اللہ اسے بخوبی جانتا ہے۔“ [البقره:270 ]
نذر ماننا فرض نہیں لیکن جب کوئی شخص نذر مان لے تو پھر اسے پورا کرنا فرض ہو جاتا ہے۔
ارشاد ہے:
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ
”اور وہ اپنی نظروں کو پورا کرتے ہیں۔“ [الدهر 7 ]
وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ
”اور اس لیے بھی کہ وہ اپنی نذریں پوری کریں۔“ [الحج:29 ]
کسی فرض کام کی منت ماننا:
جو کام اصلاً آدمی پر فرض ہے اس کی نذر (منت) ماننا صحیح نہیں، جیسے :
٭ نماز پنجگانہ،
٭رمضان کے روزے،
٭ یا استطاعت ہونے کی صورت میں حج ادا کرنا
٭اور زکاۃ دینا وغیرہ۔
کیوں کہ الله تعالی کسی امر کو واجب قرار دینے کی زیادہ قوت رکھتا اور زیادہ حق دار ہے بہ نسبت اس وجوب کے جو انسان خود اپنے اوپر عائد کرے۔
نیز اللہ کے فرض کردہ کام کو اپنے اوپر منت مان کر فرض قرار دینا ایک لغو کام ہے۔
نذر پوری کرنے کی استطاعت
نذر (منت) ماننے والے کو چاہیے کہ وہ ایسے کام کی نذر مانے جس کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
اگر ایسے کام کی نذر مان لی جائے جسے پورا کرنا مکن نہ ہو یا اس کو پورا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایسی نذر کو پورا کرنا لازم نہیں۔
جیسے کسی کا یہ نذر ماننا کہ وہ اپنا پورا مال صدقہ کر دے گا۔ ایسا کرنا نہ تو شرعا جائز ہے اور نہ ہی کسی شخص کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے کیوں کہ مال میں گھر، جائیداد، سواری، لباس، استعمال کی چیزیں، زیور، نقدی سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔ اگر وہ شخص یہ سب صدقہ کر دے تو خود کہاں رہے گا؟ کیا کھائے گا؟ کیا پہنے گا؟
یاد رہے کہ شریعت نے کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اپنا تمام مال صدقہ کر دے کیوں کہ اس صورت میں اس کے خود محتاج ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی غزوہ تبوک پر سارا مال صدقہ کر دیا تھا تو حقیقت یہ ہے کہ اپنا گھر اور پہنا ہوا لباس انہوں نے صدقہ نہیں کیا تھا۔
? عبداللہ بن کعب جو اپنے والد کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد ہوا کرتے تھے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد (کعب ب رضی اللہ عنہ نے (توبہ قبول ہو جانے پر) کہا: ”اللہ کے رسول! میری توبہ کا شکرانہ یہ ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھو تمہارے لیے بہتر ہے انہوں (کعب رضی اللہ عنہ ) نے کہا: میں اپنا وہ حصہ جو خیبر میں ہے اسے اپنے پاس رکھتا ہوں۔“ [ابوداود: 3317، بخاري: 4418 مسلم:2769 ]
? ایک روایت میں ہے کہ ”کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مال صدقہ کر دینے کا سن کر فرمایا: نہیں۔ کعب کہتے ہیں: میں نے کہا: آدها مال؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ عرض کیا: تہائی مال۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اپنا خیر والا حصہ رکھ لیتا ہوں (باقی صدقہ کر دیتا ہوں)“۔ [ ابوداود: 3321 ]
ناجائز کام کی منت مان لینا:
? سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر (منت) مانی اسے چاہیے کہ اللہ کی اطاعت کرے اسے پورا کرے اور جس نے اللہ کی معصیت کی نذر مانی وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے (اور نذر کو چھوڑ دے)۔ [ابوداو: 3289، بخاري:6696-6700 ترمذي:1526 ابن ماجه:2126 ]
? سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے بیٹوں کے (کندھوں کے ) درمیان سہارا لے کر چل رہا تھا۔ آپ نے اس کے متعلق دریافت کیا تو انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالی کسی کے اپنے نفس کو عذاب دینے سے غنی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس بزرگ نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ [بخاري : 6701، 1865 ابوداود: 3301 ]
? سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں عورت کا ذکر ہے جس نے پیدل بیت اللہ کی طرف جانے کی نذر مانی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: الله اس کے پیدل چلنے سے بے پروا ہے اسے سوار ہونے کا حکم دیا جائے۔ [صحيح ترمذي للالباني:1536 ]
? ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ ایک شخص دھوپ میں کھڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں عرض کیا۔ اس ( ابو اسرائیل) نے نذر مانی ہے کہ وہ سورج کی دھوپ میں کھڑا رہے گا، نہ بیٹھے گا، نہ سائے میں آئے گا، نہ کسی سے کلام کرے گا اور روزہ رکھے گا یعنی کچھ نہیں کھائے گا۔ آپ نے فرمایا: اسے حکم دو کہ وہ بات کرے، سائے میں آئے، بیٹھ جائے لیکن اپناروزہ پورا کر لے۔ نذر صرف اس کام میں ہے جس میں اللہ تعالی کی رضا مقصود ہو۔ [بخاري :2704 ابوداؤد :3300 ابن ماجه:2136 ]
? قیس بن حازم کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت کے پاس گئے جس کا نام زینب تھا۔ قیس بن حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ عورت بولتی نہیں۔ لوگوں نے آپ کو بتایا کہ اس عورت نے چپ رہ کر حج کرنے کی نیت کی ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ تم بات کرو، یہ (چپ رہ کر حج کرنا) حلال نہیں بلکہ جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس عورت نے بات چیت شروع کر دی۔ اس عورت نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تو کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں مہاجرین میں سے ایک آدمی ہوں۔ اس عورت نے پوچھا: کون سے مہاجرین میں سے؟ آپ نے جواب دیا: قریش کے مہاجرین میں سے۔ اس عورت نے پوچھا : تم کون سے مہاجرین میں سے ہو؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم بہت سوال کرنے والی ہو، میں ابوبکر ہوں۔ اس عورت نے کہا: ہم کب تک درست حالت پر رہیں گے جس کو اللہ تعالی جاہلیت کے بعد لایا؟ آپ نے کہا: جب تک تمہارے پیشوا تمہارے ساتھ سیدھے اور درست رہے۔ اس عورت نے کہا: کون سے پیشوا؟ انہوں نے کہا: کیا تمہاری قوم کے سردار اور بزرگ نہیں کہ جو ان کو حکم دیتے ہیں وہ ان کی بات کو مانتے ہیں۔ عورت نے کہا: کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا: وہ لوگوں کے لیے انہی کی طرح ہوں گے۔ [ سنن دارمي:218، بخاري:3834 ]
? سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ آپ ایک آدمی کے پاس سے گزرے۔ اس حالت میں کہ دوسرا اسے نکیل ڈال کر لیے جا رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نکیل کو اپنے ہاتھ سے توڑ ڈالا اور اسے حکم دیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلے۔ [ابوداود : 3302، بخاري:1620 ]
? ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے یتیم بھتیجوں کے ساتھ کھانا نہیں کھائے گا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو حکم دیا کہ جاؤ ان کے ساتھ جا کر کھانا کھاؤ۔ [مصنف عبدالرزاق:443/1 المحلي 5/8 ]
حاصل:
➊ الله تعالی کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان کی منت مان کر حرام قرار دے۔ لینا اللہ کی ناشکری ہے۔
➋ کسی چیز کوحرام قرار دینے کا اختیاراللہ کے پاس ہے۔
➌ کسی عبادت کا فرض ہو یا نفل طریقہ اپنی طرف سے وضع نہیں کیا جا سکتا۔
➌ کسی عبادت میں کوئی جزوی (ذرا سی بھی ) اور کلی ( پوری کی پوری ) تبدیلی کرنا جائز نہیں۔
➍ عبادات کے طریقے میں تبدیلی کرنا بدعت کہلاتا ہے اور بدعت جہنم میں لے جانے والی چیز ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے : بدعت کیا ہے)
➎ درویشوں، راہبوں، جوگیوں وغیرہ کی طرح، :
٭دھوپ میں کھڑا رہنا ——
٭سائے میں نہ بیٹھنا——
٭پانی میں مسلسل کھڑارہنا——
٭چلہ کاٹنا ——
٭سواری کا انتظام ہوتے ہوئے پیدل حج کے لیے جانا حرام ہے۔
➏ کافروں کی مشابہت کرنا حرام ہے۔
? رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جس کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔ [ ابوداؤد : 4031 ]
➐ منت کا جتنا حصہ جائز ہے اسے پورا کرنا چاہیے اور اس کے ناجائز حصے کو چھوڑ دینا لازم ہے۔
➑ حج کے لیے پیدل چل کر جانا ریا کا باعث ہے۔ اگر رہائش اسی علاقے میں ہو تو پھر درست ہے۔
➒ پیدل حج کے لیے جانا تقویٰ کے منافی ہے۔
➓ چپ کا روزہ رکھنا حرام ہے۔
⓫ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں عوام کا خیال رکھتے اور ہر قبیلے کے پاس جا کر ان کا حال پوچھتے۔
⓬ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ حج کے موقع پر پیش آیا۔
⓭ عورت نے چپ رہ کر حج کرنے کی منت مانی تھی جو ناجائز ہے۔
⓮ عورت نے سیدنا ایوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بات فورا مان لی۔ اپنے سے زیادہ بڑے عالم کی بات مان لینی چاہیے بشرطیکہ وہ جائز کام کا حکم دے۔
⓯ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا اصل نام بتانا مناسب نہ سمجھا۔ خلفائے راشدین اور صحابہ اپنے آپ کو عام آ دمی سمجھتے اور اپنے مناصب بتا کر ان پر رعب نہیں ڈالتے تھے۔
⓰ حکمران کا کام ہے کہ لوگوں کو نیکی کی نصیحت کرے۔
⓱ جب تک بڑے درست رہیں معاشرہ درست رہتا ہے۔
⓲ کسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی منت ماننا بھی حرام ہے۔
⓳ آدمی کو نکیل ڈالنا انسانی شرف کے منافی ہے لہذا ایسا کرنا جائز نہیں۔
⓴ جاہلی امور سے بچانے کے لیے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔
جیسے کہ فرمان ہے۔
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ
”اور (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو اتارتے ہیں۔ “ [الأعراف:157 ]
درج ذیل کاموں کی منت مانا بھی جائز نہیں۔
➊ کسی سے بات نہ کرنے کی قسم کھانا یا منت ماننا
➋ کسی کی عیادت تعزیت یا ملاقات کے لیے نہ جانے کی منت مانا
➌ جانوروں جیسی حرکات کرنا ——
٭ہاتھ استعمال کیے بغیر جانوروں کی طرح کھانا یا پینا ——
٭جانوروں کی طرح بیٹھنا——
٭جانوروں کی طرح ننگے رہنا ——
٭کھڑے ہو کر پیشاب کرنا (مجبوری ہو تو کر سکتے ہیں)
جو چیز ملکیت میں نہیں اس کی نذر ماننا:
?مشرکین مکہ نے مدینہ منورہ کے چرتے جانوروں پر ڈاکہ ڈالا اور عضباء اونٹنی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی لے گئے۔ ساتھ ہی وہ مسلمانوں کی ایک عورت کو بھی قید کر کے لے گئے وہ لوگ رات کے وقت اپنے اونٹوں کو ان کے باڑوں میں چھوڑ دیتے۔ ایک رات ان پر نیند طاری کر دی گئی تو وہ عورت اٹھی (تاکہ فرار ہو جائے) وہ جس اونٹ پر ہاتھ رکھتی وہ بلبلانے لگتا۔ بالآ خر وہ عضباء اونٹنی کے پاس آئی گویا کہ وہ ایک نرم خو اور سفر کی عادی اونٹنی کے پاس آگئی وہ (بلبلائی نہیں) وہ عورت اس (عضباء) پر سوار ہو گئی۔ پھر اس نے اپنے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اسے نجات دے دی، تو وہ اس اونٹنی کو ضرور ذبح کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی تو یہ اونٹنی (عضباء) پہچان لی گئی کہ یہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا، اسے (اونٹنی) آپ کی خدمت میں لایا گیا اور اس کی نذر کے متعلق بھی بتایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس (عورت) نے اسے بہت برا بدلہ دیا۔ یا عورت کو مخاطب کر کے فرمایا: تو نے اسے بہت برا بدلہ دیا۔ اللہ تعالی نے اسے (عورت کو ) اس اونٹنی کے ذریعے سے نجات دی اور وہ اسے نحر کرنے چلی ہے، جس کام میں اللہ کی معصیت ہو یا ایسی چیز جس کا انسان ما لک نہ ہو اس میں نذر نہیں۔ [ابوداؤد:2316، مسلم:1641 كتاب النذورالايمان ]
حاصل :
➊ جس چیز کے مالک نہیں اس کی نذر ماننا جائز نہیں۔
➋ جس چیز سے مشکل میں فائدہ اٹھایا جائے اسے اچھا بدلہ دینا چاہیے نہ کہ اسے برا بدل دیا جائے یا تلف کر دیا جائے۔
ناجائز کام کی نذر (منت) کا کفارہ:
? رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نذر فى معصية و كفارته كفارة اليمين
معصیت (یعنی شریعت میں ممنوع) کام میں نذر (منت) ماننا جائز نہیں اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
[ابوداؤو :3290، ترمذي:1524، اين ماجه:2125 ]
?عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حد یث بیان کی ہے کہ :
كفارة النذر كفارة اليمين
” نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔“ [مسلم :1645، ابوداود:3324، ترمذي:1524، ابن ماجه : 2125 ]
دراصل نذر (منت) ایک عہد ہے جسے انسان اللہ تعالی سے کرتا ہے اور اس عہد کو پورا کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ چونکہ قسم میں بھی انسان کسی کام کو اپنے لیے موکد اور فرض قرار دے لیتا ہے لہٰذا قسم اور نذر (منت) دونوں پوری کرنے اور پوری نہ کرنے کے مسائل یکساں ہیں۔ اگر کسی ممنوع کام کے کرنے کی قسم کھائی جائے یا جائز کام کو نہ کرنے کی قسم کھائی جائے تو اس کو پورا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا کفارہ ادا کیا جائے گا۔
?سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کے متعلق فرمایا :جس نے اپنا وراثت کا مال ورثا میں تقسیم کرنے کی بجائے بیت اللہ کو ہبہ کر دیا تھا کہ وہ قسم کا کفارہ ادا کرے۔ [موطا: 481/2 ]
کیوں کہ اپنی وفات کے قریب پورا مال ورثا کو محروم کر کے کہیں اور خرچ کر دینا جائز نہیں البتہ اپنی جوانی یا تندرستی میں جب کہ ابھی مزید مال کمانے اور آنے کی امید ہوتی ہے، ایسا کیا جا سکتا ہے۔
?سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے تو آپ نے فرمایا: بے شک اللہ اس کی نذر سے بے پروا ہے اسے حکم دو کہ سوار ہوجائے۔ [ ابوداود: 3297 ]
?دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سوار ہو اور قربانی کرے۔ [ابوداؤد 3296،دارمي : 3240 ]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن جنہوں نے پیدل حج کرنے کی منت مانی تھی کے متعلق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تیری بہن کے پیدل چلنے سے بےپروا ہے (یعنی اسے اس پر اجر نہیں دے گا ) اسے چاہیے کہ وہ سوار ہو جائے اور ایک اونٹنی کی قربانی دے۔ [ابوداؤد : 3303 ]
?سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ ننگے سر ننگے پاؤں کعبہ کی طرف جائے گی۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا: اس کو کیا ہوا۔ لوگوں نے کہا: اس نے کعبہ کی طرف ننگے سر، ننگے پاؤں جانے کی نذر مانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو حکم دو کہ وہ سوار ہو جائے اور چادر اوڑھ لے اور حج ادا کرے اور ہدی پیش کرے۔ [ طحاوي، شرح المعاني 47/2طبراني فى معجم الكبير:17/ 886 سلسله احاديث صحيحه :2930 ]
?سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کسی نے یہ نذر مانی کہ فلاں دن روزہ رکھوں گا۔ اس دن عید ہوگئی تو عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : ”تم کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پیروی لازم ہے۔ آپ عید الفطر اور عیدالاضحی کو روزہ نہیں رکھا کرتے تھے۔“ [ بخاري:2705 ]
حاصل:
➊ مسلمان شرعا ناجائز و حرام اور ممنوع کام کی نذر نہیں مان سکتا۔
➋ اگر شرعا ممنوع کام کی نذر (منت) مان لی تو اسے پورا کرنا لازم ہے۔
➌ اگر شرعا ناجائز کام کی منت کو پورا کیا تو یہ سنگین گناہ ہے۔
➍ حرام و ممنوع کام کو اپنے لیے واجب قرار دینا سنگین ترین گناہ ہے۔
➎ حرام کام کی منت مان لینے پر اس کا کفارہ دینا لازم ہے۔
➏ نذر (منت) کا کفارہ وہی ہے جو قسم توڑنے کا کفارہ ہے۔
➏ قسم کھانا اور منت ماننا شرعی حکم کے لحاظ سے ملتے جلتے کام ہیں۔
➐ اگر روزے کی منت ان دنوں میں پڑ رہی ہو جن میں روزہ رکھنا حرام ہے تو ان میں روزہ نہ رکھے اورقسم کا کفارہ دے لے۔
زمانہ جاہلیت کی مانی گئی نذر:
اسلام قبول کرنے یا شریعت کا علم حاصل ہونے سے پہلے مانی ہوئی نذر کے احکام اس کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ اور وہ یہ ہیں:۔
➊ جس کام کی نذر مانی ہے وہ شریعت اسلام میں بھی جائز ہو، مسلمان ہونے کے بعد اس کام کو لازماً پورا کرے۔ جیسے :
?سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو۔ [مسند احمد 27/1 ]
➋ دوسری نذروہ ہے جس میں کوئی کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانی کی بات نہ ہو اور نہ ہی اس میں کفار و مشرکین کی مشابہت کا کوئی پہلو شامل ہو۔
جیسا کہ :
?میمونہ بنت کثردم کے والد نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے (جاہلیت میں ) بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر (منت) مانی تھی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے دریافت کیا: کیا وہاں کوئی بت یا طاغیہ تو نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اوف بنذرك (اپنی نذر پوری کرو)۔ [صحيح ابن ماجه للالباني :1733 ]
طاغیہ تو نہیں، سے مراد یہ کہ اس جگہ سے متعلق لوگوں کا کوئی شرکیہ عقیده یا گمان تو نہیں؟ مثلا وہاں ذبح کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے۔ برکت حاصل ہوتی ہے، فلاں مصیبت سے نجات مل جاتی ہے یا وہاں ذبح کرنے سے فلاں فلاں نعمت حاصل ہو جاتی ہے۔ وغیره
جب آپ کو یہ اطمینان ہو گیا کہ وہاں کسی بت کا استھان نہیں تھا اور نہ ہی وہاں کوئی اور کفریہ یا شرکیہ کام کیا جاتا تھا تو آپ نے اس نذر کو پورا کرنے کا حکم دیا۔
? ثابت بن ضحاک سے بھی یہی حدیث مروی ہے۔ آپ نے بوانہ جگہ کے متعلق پوچھا: کیا وہاں جاہلیت کا کوئی بت تھا؟ جس کی عبادت ہوتی تھی؟ صحابہ نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا وہاں ان کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرے، تحقیق ایسی نذر کی کوئی وفا نہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور اس نذر کی (بھی وفا نہیں) جو انسان کے اختیار میں نہ ہو۔ [ ابوداؤد :3312 ]
?عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ میں نے نذر مانی ہے کہ آپ کے سامنے دف بجاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلے۔ اس نے کہا: میں نے نذر مانی ہے کہ فلاں جگہ جانور ذبح کروں گی جہاں اہل جاہلیت ذبح کرتے تھے۔ آپ نے پوچھا: کیا وہاں کوئی مورتی تھی جس کے لیے وہ ذبح کرتے تھے۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا وہاں کوئی بت تھا جس کے لیے ذبح کرتے تھے۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لے۔ [ابوداود:3312 ]
➌ تیسری صورت یہ کہ اس میں اللہ کی نافرمانی اور کفار و مشرکین کی مشابہت پائی جاتی ہو، جیسا کہ سابقہ احادیث میں ہے کہ :
?رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کی کہ کیا ان نذروں کے پورا کرنے میں کفار ومشرکین کی مشابہت نہیں ہو گی؟
حاصل:
➊ جاہلیت کے دور میں شرعاً نیکی کے جو کام شروع کیے تھے انہیں جاری رکھا جا سکتا ہے بلکہ جاری رکھنا چاہیے۔
➋ جاہلیت میں شرعا جائز کام کی مانی گئی نذر( منت ) پوری کرنا لازم ہے۔
➌ کسی کام سے متعلق فتوی دینے سے پہلے اس کے بارے میں پوری معلومات حاصل کر لینا چاہئیں تا کہ غلط جواب دینے کا احتمال نہ رہے۔
➍ جن کاموں کا شرک اور کفر سے تعلق پایا جانے یا شرکیہ اور کفریہ کاموں سے مشابہت ہو مسلمان کے لیے ان سے بچنا بھی لازم ہے۔
➎ دف بجانا جائز ہے۔
مانی گئی نذر کی نسبت بہتر صورت:
?فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں نے اللہ کے لیے نذر مائی ہے کہ اگر اللہ نے آپ کو مکہ فتح کرا دیا تو بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس (بیت الحرام ) میں پڑھ لو۔ اس نے اپنی بات دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں پڑھ لو۔ اس نے پھر یہی کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تیری مرضی ہے۔ [ ابوداود:2305 ]
?سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت بیمار پڑ گئی۔ اس نے نذر مانی کہ اللہ نے شفا دی تو وہ بیت المقدس جا کر نماز ادا کرے گی۔ جب وہ صحت یاب ہوئی تو اس نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ سیدہ میمونہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اس سے فرمایا: تو مسجد الرسول ہی میں نماز پڑھ لے کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ یہاں ایک نماز ہزار نماز اور مساجد سے افضل ہے سوائے کعبہ کے۔ [مسلم:3383 ]
حاصل:
➊ نذر مانے گئے کام کی نسبت اگر بہتر صورت سامنے ہو تو نذر اس کی صورت میں پوری کی جا سکتی ہے۔
➋ بیت المقدس کی نسبت مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کا اجر زیادہ ہے اس لیے بیت المقدس میں نماز ادا کرنے کی نیت کرنے والا مسجد نبوی میں ادا کر سکتا ہے۔
➌ اسی طرح مسجد نبوی یا کسی عام مسجد میں نماز کی منت ماننے والا بیت الحرام میں نماز ادا کر سکے نذر پوری کر سکتا ہے۔
➍ اگر کوئی شخص نذر مانے کہ وہ مسجد میں ہزار رو پیہ دے گا یا مسجد اور نمازیوں کی سہولت کی کوئی چیز مہیا کرے گا اور اسے ایسا کوئی شخص یا کوئی ایسی جگہ نظر آ جائے جو مسجد میں خرچ کرنے کی نسبت زیادہ ضرورت مند ہو تو رقم اس پرخرچ کر سکتا ہے۔
خبردار:
مانی گئی نذر کی نسبت کم تر ثواب یا کم تر درجے والی چیز اختیار کر کے نذر اداکرنا جائز نہیں۔ مثلاً
➊ منت مانی کہ بکرا ذبح کروں گا لیکن مرغا ذبح کر دیا۔
➋ منت مانی کہ دینی کتب یا قرآن حکیم کی تفاسیر فی سبیل اللہ دوں گا لیکن دنیوی تعلیم والی یا دنیوی تعلیم کی اسلامیات خرید کر تقسیم کر دی۔
نذر یا شرط:
?سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ نذر ابن آدم کی تقدیر میں ہے میں نے سب سے پہلے مقدر کیا ہو کوئی تبدیلی نہیں لاتی بلکہ یہ تقدیر ہی میں سے ہوتا ہے کہ انسان نذر مان لیتا ہے جس کے ذریعے سے بخیل سے کچھ نکلوایا جاتا ہے اور وہ کچھ کروایا جاتا ہے جو وہ اس سے پہلے نہیں کر رہا ہوتا۔ [ابوداؤد: 3288 ]
? سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
انه لا يرد شيأ انما يستخرج به من البخيل
”یہ (منت) کچھ نہیں لوٹاتی بلکہ اس کے ذریے صرف بخیل سے مال نکلوایا و جاتا ہے۔ “ [بخاري : 2208، ابوداؤد : 3278، ابن ماجه: 2122 ]
اس حدیث کی وجہ سے علماء کی رائے مالی نذر ماننے میں مختلف ہے :
➊ بعض کا خیال ہے کہ مالی نذر ماننا جائز نہیں، بدنی عبادات کی نذر مانی جا سکتی ہے۔
➋ امام شافعی، امام احمد اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم کا خیال ہے مالی نذر ماننا منوع نہیں البتہ مکروہ ہے۔
➌ حافظ صلاح الدین یوسف اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
”یہ ممانعت اور ناپسندیدگی اس قسم کی نظر میں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو اتنامال صدقہ کروں گا کیوں کہ ہونا تو وہی ہے جو مقدر ہوتا ہے مگر اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو آدمی عام حالات میں ان کی رضا کے لیے خرچ نہیں کرتا وہ کسی مشکل میں پڑ کر خرچ کر دیتا ہے الغرض اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو اپنی مطلب برآری کے ساتھ مشروط کرنا پسند نہیں کیا گیا۔“ [ سنن ابوداؤد مع تشرع از حافظ صلاح الدين يوسف مطبوعه دار السلام ]
شرط کی بجائے نقد ادائیگی :
سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ آدمی جب پریشان ہو اور چاہتا ہو کہ الله تعالى اس کا مسئلہ حل کر دے تو وہ منت ماننے کی بجائے جس کام کے ہونے کی مالی منت ماننا چاہتا ہے اسے ابھی ادا کر کے دعا کرے کیوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے پتا چلتا ہے کہ کوئی نیک کام کرنے کے بعد دعا قبول ہوتی ہے جیسے حدیث میں غار والوں کا قصہ ہے۔
میت کی نذر (منت) پوری کرنا:
? ایک شخص نے رسول اللہ ن سے اپنی فوت شده بہن کے متعلق پوچھا، جس نے حج کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو حج کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا ؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالی کو بھی (قرض) ادا کرو کیونکہ وہ ادا کر نے کا زیادہ مستحق ہے۔ [ بخاري :6699 مسلم:1638 ]
?سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے سمندر میں سفر کیا اور نذر مانی کہ اگر اللہ نے اسے (طوفان سے ) نجات دے دی تو وہ ایک مہینے کے روزے رکھے گی چنانچہ اللہ نے اسے نجات دے دی مگر اس نے ابھی روزے نہیں رکھے تھے کہ وہ فوت ہوگئی ہیں اس کی بیٹی یا بین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اس کی طرف سے روزے رکھے۔ [ابوداؤد : 3308 نسائي :3487 ]
?سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ماں کی نذر کے متعلق پوچھا، جو ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گئیں تھیں۔ آپ نے فرمایا : تم اس کی طرف سے ادا کرو اور پھر یہی طریقہ جاری ہو گیا۔ [ بخاري: 6698، 276 ]
?سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک عورت کومسجد قبا میں نماز پڑھنے کا حکم دیا جس کی والدہ نے قبل از وفات یہ نذر مانی تھی۔ کرنے کی بجائے میت کے ترکے سے ادا کریں گے خواہ میت نے اس کی وصیت نہ بھی کی ہو۔ [بخاري قبل از حد يث:6698 ]
امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ جب میت نے وصیت کی ہو تو ترکہ سے ادا کی جائے گی۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ نذرکی قضا و رثا پر بہر حال لازم ہے کیوں کہ حدیث سے یہی پتا چلتا ہے۔
حاصل:
➊ نذر ایک واجب امر ہے لہذا میت کے ورثا پر اس کی قضا کرنا واجب ہے۔
➋ اگر مالی نذر ہو تو ورثا میت کے ترکے سے بھی اسے پورا کر سکتے ہیں۔
➌ اگر ورثا ترکے سے پورا کرنے کی بجائے اپنی طرف سے پورا کریں تو یہ بھی درست ہے۔
نذر میں پائی جانے والی مروجہ خرابیاں:
➊ لغو کاموں کی نذر ماننا مثلا پاکستان میچ جیت گیا تو ——
٭فلاں ملک کا ویز مل گیا تو ——
٭لڑکا پیدا ہوا تو ——
٭بیوی کو میکے نہیں جانے دوں گا——
٭فلاں گھر سے کھانا نہیں کھاؤں گا——
➋ ناجائز اور حرام کام کی نذر ماننا مثلاً :
٭ فلاں مزار پر پیدل جاؤں گا——
٭ فلاں جگہ دیگ پکا کر بانٹوں گا
٭یا بکرا ذبح کروں گا ——
٭فلاں جگہ چراغ جلاؤں گا ——
٭گیارہویں دوں گا ——
٭قصیدہ بردہ پڑھواؤں گا——
٭ختم دلاوں گا——
٭حسین کے نام کی لٹ رکھوں گا ——
٭کونڈے بھروں گا——
٭شراب پیوں گا——
٭داڑھی منڈادوں گا——
٭لڑکا پیدا ہوا تو ہیجڑوں کا ناچ گانا کرواؤں گا۔
➌ جو کام نہیں کر سکتے اس کی منت مان لینا مثلاً :
٭سو نفل پڑھوں گی جو عورت فرض نماز مشکل سے پڑھتی ہے وہ بھلا سو نفل کیسے پڑھے گی؟
➍ دس ہزار فی سبیل اللہ دوں گا جس کی تنخواہ ہی پندرہ بیس ہزار ہو اور بال بچے دار بھی ہوتو وہ دس ہزار یک مشت کیسے نکال سکے گا؟
➎ غلام آزاد کروں گا—— جب کہ دور حاضر میں غلام ہوتے ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو اسے خریدنے کی استطاعت نہ ہو—–
زندہ یا مردہ بزرگ
ہمارے ہاں جاہل لوگوں کی عادت ہے کہ وہ کسی زندہ یا مردہ پیر کے لیے منت مان لیتے ہیں مثلاً:
➊ فلاں جانور فلاں بزرگ کے نام پر نہ کروں گا۔
➋ فلاں بزرگ کے ہاں پیدل حاضری دوں گا۔
➌ فلاں مزار پر اپنی دیگیں پکا کر یافلاں فلاں کھانے کی تقسیم کروں گا۔
➍ فلاں بزرگ کے نام کا چوغا پہنوں گا یا سر پر اس کے نام کی لٹ رکھوں گا۔
➎ فلاں بزرگ کے نام سے کڑے یا منکے پہنوں گا۔
➏ فلاں کام ہو جائے تو فلاں بزرگ کے ہاں یا اس کے مزار پر حاضری دوں گا۔
➐ فلاں بزرگ کے مزار پر دھونی رماؤں گا یعنی آگ جلا کر دھواں کروں گا۔
➑ فلاں بزرگ کو گھر میں بلا کر ان کی دعوت کروں گا۔
➒ فلاں بزرگ کے لیے قوالی کرواؤں گا یا گانا بجا نا کروں گا۔
➓ فلاں بزرگ کے مزار پر بچہ چڑھاؤں گا جیسے شاہ دولا کے چوہے وغیرہ۔
غرض بزرگوں کے نام سے بہت سی جاہلی باتیں پائی جاتی ہیں جو نذر یا منت ہی کی ذیل میں آتی ہیں۔ اس طرح کی تمام منتیں ماننا حرام ہے اور اگر منت مان لی ہے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں ہے۔ اس میں عقیدے کی درج ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں:
➊ اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کے لیے نذر ماننا جائز نہیں کیوں کہ نذر ماننا ایک عبادت ہے۔
➋ غیر اللہ کے لیے نذر ماننا شرک ہے۔
➌ جس بزرگ کی طرف سے نذر دی جارہی ہے، اس کے متعلق یہ عقیدہ بھی ہوتا ہے کہ وہ میرے حال کو دیکھ رہا ہے اور میرا مسئلہ حل کرنے پر قادر ہے اور یہی شرک ہے۔
➍ اگر منت پوری نہ کی تو بزرگ کی طرف سے مجھے نقصان پہنچے گا، اگر منت پوری کروں گا تو بزرگ خوش ہوگا گویا بزرگ کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر سمجھا جا رہا ہے جب کہ کسی کو ایسا سمجھنا شرک ہے۔
➎ مالک سمجھنا جائز نہیں ہے۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا اس پر لعنت ہے۔
تفسیر کبیر میں ہے کہ اسلام میں ”غفر “ جائز نہیں یعنی جانور کو مزار پر لے جا کر ذبح کرنا۔ [ بحواله تعليم القرآن ماهنامه ستمبر 1921 مسئله نذر الغير الله از مولانا محمد خاں شيراني ]
➏ مخلوق کے لیے نذر ماننے کی حرمت پر اجماع ہے۔ [البحرالرائق ]
➐ قبر کے پاس گائے اور بکری و غیره ذبح کرنا جائز نہیں۔ [فقه ابي الليث ]
➑ جس نے کسی بادشاہ یا کسی دوسری شخصیت کی تعظیم کے لیے ذبح کیا وہ حرام ہے اگر چہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ البتہ مہمان کی مہمان نوازی کے لیے جانور ذبح کر سکتے ہیں۔ [مجموع الفتاوي از مولانا عبدالحي لكهنوي، بحواله مجله تعليم القرآن ستمبر 1921 ]
➒ غیر اللہ کے لیے ذبح کیا گیا جانور حرام ہے چاہے بسم اللہ کہہ کر ذبح کیا جائے۔ [ فتاويٰ رشيديه ص:400 ]