بیان کیا جا تا ہے کہ جس شب آپ پیدا ہوئے، قریش کے بڑے بڑے سردار جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ ایک یہودی نے جو مکہ میں سوداگری کرتا تھا ان سے آ کر دریافت کیا، کہا تمہارے یہاں آج کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے؟ سب نے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔ اسی نے کہا : اللہ اکبر تم کو نہیں معلوم تو خیر میں جو کچھ کہتا ہوں اس کو سن لو، آج شب کو اس پچھلی امت کا نبی پیدا ہوا ہے۔ اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں ایک نشانی ہے، اس میں گھوڑے کے ایال کی طرح کچھ اوپر تلے بال ہیں، اور وہ دو دن تک دودھ نہ پئے گا۔ کیونکہ ایک جن نے اس کے منہ میں انگلی ڈال دی ہے۔ جس سے وہ دودھ نہیں پی سکتا۔ جب جلسہ برخواست ہو گیا۔ اور لوگ گھروں کو لوٹے تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن عبد المطلب کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ لوگ اس یہودی کو آمنہ کے گھر لائے۔ اس نے بچے کے پیٹ پر تل دیکھا تو غش کھا کر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو لوگوں نے سبب پوچھا۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! اسرائیل کے گھرانے سے نبوت رخصت ہو گی۔ اے قریش ! تم اس کی پیدائش سے خوش ہو، ہوشیار، اللہ کی قسم یہ ایک دن تم پر ایسا حملہ کرے گا جس کی خبر چار دانگ عالم میں پھیلے گی۔
تحقیق الحدیث :
یہ روایت حاکم کی مستدرک میں ہے، [مستدرك حاكم 602/2 رقم 4177، السيرة النبويه 101/1،، مختصر المستدرك 1055/2]
اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
مگر اہل عمل جانتے ہیں کہ حاکم کا کسی روایت کو صحیح کہنا ہمیشہ تنقید کا محتاج رہتا ہے۔
چنانچہ حافظ ذہبی نے تلخیص مستدرک کی [ج 2 ص 602] میں حاکم کی تردید کی ہے۔
اس کا سلسلہ روایت یہ ہے کہ یعقوب بن سفيان فسوی، ابوغسان محمد بن یحییٰ کنانی سے اور وہ اپنے باپ یحییٰ بن علی کتانی سے اور وہ محمد بن اسحاق ( مصنف سیرت) سے روایت کرتا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن اسحاق نے خود اپنی سیرت میں یہ روایت نہیں لی۔
ابوغسان محمد بن یحییٰ کو گو بعض محدثین ( بخاری) نے ثقہ کہا ہے مگر محدث سلمانی نے اس کو منکر الحدیث ( ایسی باتیں بیان کرنے والا جن کی تصدیق دیگر معتبر روایات سے نہیں ہوتی) کہا ہے۔
ابن حزم نے اس کو مجہول کہا ہے۔
بہرحال اس تک غنیمت ہے۔ مگر اس کے باپ یحییٰ بن علی کا کہیں کوئی ذکر نہیں کہ یہ کون تھا اور کب گزرا ہے؟
اس قسم کی ایک روایت اسی راہب کے متعلق ابو جعفر بن ابی شیبہ سے مروی ہے۔ اور ابونعیم نے دلائل میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ لیکن زرقانی نے لکھا ہے کہ ابو جعفر بن ابی شیبہ نامعتبر ہے۔