نبی کریمﷺ کی زبان اطہر سے سنت کی اہمیت کا بیان
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور عام امت کو اپنی اطاعت اور اتباع کا حکم فرمایا اور اپنی زبانِ اطہر سے اپنی سنت مطہرہ کی اہمیت کو واضح کیا۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبي، قالوا : يا رسول الله، ومن يأبي؟ قال: من أطاعني دخل الجنة، ومن عصاني فقد أبي.»
صحيح بخارى، كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 827.
” میری ساری امت جنت میں جائے گی مگر جس نے انکار کیا، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انکار کون کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ تو جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی ، پس تحقیق اس نے انکار کیا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی اتباع واطاعت میں ہی خیر اور بھلائی ہے۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو فرماتے:
«أما بعد، فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدى محمد، وشر الأمور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة.»
صحيح مسلم، كتاب الجمة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، رقم: 2005.
”اما بعد، سب سے اچھا کلام اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین طریقہ وسیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ۔ اور سب سے برے کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے علاوہ گمراہی ہی گمراہی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما أبدا كتاب الله وسنه نبيه»
مؤطا امام مالك، كتاب القدر باب النهي عن القول بالقدر رقم: 3- مستدرك حاكم: 1/39- سلسلة الصحيحة رقم: 1791.
”میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت “
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من لم يكن يكفيه ذان فلا كفا ه الله شر حوادث الأزمان
من لم يكن يشفيه ذان فلا شفا ه الله فى قلب ولا أبدان
من لم يكن يغنيه ذان رما ه الله رب العرش بالأعدام والحرمان
من لم يكن يهديه ذان فلا هدا ه الله سبل الحق والإيمان .

القصيدة النونية مع شرحه للخليل الهراس،ص:347۔
”جو شخص قرآن وحدیث کو کافی نہیں سمجھتا تو اللہ تعالیٰ اس کو گردش دوراں کے حوادث کے شر کی نظر کر دے ۔
جس شخص کی تشفی کتاب وسنت سے نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس کے قلب و جسم کو شفاء نہ دے۔
جو شخص قرآن وحدیث کے ذریعے دیگر اشیاء سے بے پرواہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اعدام اور حرمان نصیبی اس کا مقدر بنادے۔
جس کو قرآن وحدیث ہدایت نہ دے اللہ تعالیٰ اس کو حق اور ایمان کی دولت سے محروم کر دے۔ “
سید نا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل بدعة ضلالة»
سن ابوداؤد، رقم: 4607۔ جامع ترمذي، رقم: 2676۔ محدث الباني نے اسے صحيح كها هے۔
”تم میں جو شخص زندہ رہا تو وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو، اور اپنے دانتوں سے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لو اور دین میں نت نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ ہر بدعت (من گھڑت کام ) گمراہی ہے۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے۔ ہر مسلمان پر اس کا اتباع اسی طرح فرض ہے جس طرح قرآنِ مجید کا اتباع فرض ہے۔ چنانچہ سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«الا اني أوتيت القرآن ومثله معه»
سنن ابوداؤد، كتاب السنة، رقم: 4606۔ سنن ابن ماجة، رقم: 12 ۔ مسند أحمد: 130/4 – محدث الباني نے اسے صحيح قرار ديا هے۔
”خبر دار ! مجھے قرآن مجید دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی مانند اور بھی عطا کیا گیا ہے۔ “
«عن حسان قال: كان جبريل ينزل على النبى صلى الله عليه وسلم بالسنة كما ينزل عليه القرآن.»
سنن دارمي، المقدمة، رقم: 4/592۔
” جناب حسان بن عطیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس طرح جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن حکیم لاتے تھے اسی طرح سنت بھی لاتے تھے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حلت و حرمت بھی اللہ تعالیٰ کی حلت و حرمت کے مترادف ہے۔
«إنما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم كما حرم الله.»
سنن ترمذي، كتاب العلم، رقم: 2664۔ محدث الباني نے اسے صحيح كها هے۔
” بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ چیزوں کو اسی طرح حرام کیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یمنی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔ آپ نے سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا : یہ اس امت کا امین ہے۔
سلسله احاديث صحيحه، رقم: 1963۔ صحيح مسلم، رقم: 2419۔
یاد رہے کہ عبادات بغیر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادا نہیں ہوسکتیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«خذوا مناسككم»
سنن نسائي، كتاب مناسك الحج، رقم: 3062 ارواء الغليل، رقم: 1095۔ محدث الباني نے اسے صحيح كها هے۔
مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو۔“
اور مزید فرمایا:
«صلوا كما رأيتموني أصلي.»
صحيح البخاري، كتاب الأذان، رقم: 631 .
”جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو، ویسے نماز پڑھو۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«فمن رغب عن سنتي فليس منى.»
صحيح بخاري، رقم: 5063۔ صحيح مسلم، رقم: 1401.
”جس نے میری سنت سے بے رغبتی ظاہر کی وہ مجھ سے نہیں۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”جو شخص میری سنت کا انکاری ہے اس پر اللہ کی، میری اور ہر نبی کی لعنت ہے۔“
مستدرك حاكم: 525/2۔ حاكم نے اسے صحيح كها هے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”میں نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو تمہیں اللہ تعالی سے قریب کرے اور جہنم سے دور مگر میں نے تمہیں اس سے روک دیا ہے ۔ “
سنن الكبرى للبيهقي: 76/7.
مزید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«((ما تركت شيئا مما أمركم الله به إلا وقد أمرتكم به، ولا شيئا مما نهاكم عنه إلا وقد نهيتكم عنه.»
سنن الكبرى، رقم: 13443.
”اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا تمہیں حکم دیا ہے میں نے اس کو نہیں چھوڑامگر میں نے بھی تم کو اس کا حکم دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے تم کو کسی چیز سے منع نہیں کیا لیکن تحقیق میں نے بھی تم کو اس سے روک دیا ہے۔“
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے [اعلام الموقعين : 307/2] میں فرمایا ہے کہ قرآن کے احکام کے ساتھ سنت کے احکام کی وضاحت تین طرح سے آئی ہے:
❀ سنت کے احکام قرآن کے احکام کے مکمل طور پر موافق ہوں۔اس طرح ایک ہی مسئلہ میں قرآن وسنت کا اتفاق ہوگا۔ جیسے نماز روزہ حج زکوۃ کے فرض ہونے کے احکام، جو شرائط اور ارکان کے ذکر کے بغیر ہوں۔
❀ جو قرآن مجید نے چاہا سنت میں ان احکام کی وضاحت و تفسیر کی گئی ۔ یعنی جہاں قرآنِ مجید نے مطلق بات کی تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مقید کر دیا، مجمل کہی تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بتادی۔ یا قرآنِ مجید کی بات عام ہے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تخصیص کردی۔ مثلاً احکام نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ، لین دین اور خرید وفروخت کے بارے میں قرآنِ مجید میں پوری تفصیلات نہیں ہیں۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
❀ سنت کے وہ احکام جن میں قرآن مجید خاموش ہے یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی چیز کو حرام کیا ہو جن کے بارے میں قرآنِ مجید خاموش ہو جیسے پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کو حرام قرار دیا، شادی شدہ زانی و زانیہ کو سنگسار کرایا ، اور دو گواہ نہ مل سکنے کی صورت میں قسم کے ساتھ ایک ہی گواہی قبول کر لی۔ ایسے احکام کسی بھی صورت میں قرآن مجید کے ساتھ نہیں ٹکراتے بلکہ وہ قرآنی احکام پر اضافہ ہیں۔ یہ بھی شریعت ہے جسے ماننا فرض ہے اور نہ ماننا کفر ہے۔ یہ نہ قرآن مجید سے آگے بڑھنے والی بات ہے اور نہ مخالفت کی بلکہ قرآن مجید کے حکم کے عین مطابق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو جو عمل اور ایمان کا نام ہے۔ رسول اللہ صلے تعلیم کے ترک کردہ امور بھی سنت ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن قیم جلالہ نے صحابہ صلی اللہ کے رسول اللہ نے ایم کے ترک کو نقل کرنے کی دو قسمیں بیان کی ہیں اور فرماتے ہیں: وُ كِلَاهُمَاسُنَّة ” اور دونوں ہی سنت ہیں“ اس کے بعد ان دونوں قسموں کی تفصیل اور مثالیں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
«فإن تركه صلى الله عليه وسلم سنه كما أن فعله سنة، فإذا استحببنا فعل ما تركه كان نظير استحبابنا ترك ما فعله ، ولا فرق»
إعلام الموقعين: 371۔ 370/2.
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترک سنت ہے جیسا کہ آپ کا فعل سنت ہے۔ پس اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کام کو جسے آپ نے ترک کیا کرنا مستحب سمجھیں تو یہ بعینہ اس طرح ہو گا جیسا کہ آپ نے جو کام کیا اس کے نہ کرنے کو ہم مستحب سمجھیں۔ “
امام جمال الدین المحدث فرماتے ہیں :
«تركه صلى الله عليه وسلم سنته كما أن فعله سنته»
صفة الجنه، ص: 143.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز اور کام کو ترک کرنا بھی سنت ہے، جیسا کہ آپ کا فعل سنت ہے۔ “

قرآن وسنت کا باہمی تعلق :

قرآن مجید کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«آن الأمانة نزلت من السماء فى جذر قلوب الرجال، ونزل القرآن، فقرء وا القرآن وعلموا من السنة»
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 7272.
”دیانتداری آسمان سے لوگوں کے دلوں میں اتری ہے یعنی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور قرآن بھی (آسمان سے ) نازل ہوا ہے، جسے لوگوں نے پڑھا اور سنت کے ذریعے سمجھا۔ “

سنت قرآنی حکم کی وضاحت بیان کرتی ہے :

پہلی مثال :

جب قرآنی آیت نازل ہوئی:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
(6-الأنعام:82)
”جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد اپنے ایمان کو ظلم سے خلط ملط نہیں کیا، انھی لوگوں کے لیے بے خوفی ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔“
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت پریشانی ہوئی۔ چنانچہ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کون ایسا ہے، جس نے کوئی ظلم یعنی گناہ نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ليس ذلك إنما هو الشرك، ألم تسمعوا ، قال لقمان لابنه: يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم »
صحیح بخاری، کتاب الایمان، رقم: 32۔ صحیح سنن ترمذی، رقم: 2452۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 124، عن ابن عباس رضی اللہ عنہ .
”آیت میں ظلم سے مراد گناہ نہیں بلکہ شرک ہے، کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت نہیں سنی، اے میرے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پریشانی ختم ہوئی۔

دوسری مثال :

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
(24-النور:2)
” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور اللہ تعالیٰ کے دین کو نافذ کرنے کے معاملے میں تم کو ترس نہ آئے ۔ اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔“
اس آیت میں زانی کی سزا سو کوڑے بیان کی گئی ہے لیکن یہ وضاحت نہ تھی کہ یہ سزا شادی شدہ جوڑے کی ہے، یا غیر شادی شدہ کے لیے ہے۔ چنانچہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کی کہ مذکورہ سزا غیر شادی شدہ کے لیے ہے۔ شادی شدہ کو رجم کرنا ضروری ہے جیسا کہ آنے والے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے۔ سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
«قال جاء ما عز بن مالك إلى النبى صلی اللہ علیہ وسلم فاعترف بالزنا مرتين فطرده ثم جاء فاعترف بالزنا مرتين فقال: شهدت على نفسك أربع مرات اذهبوا به فارجموه »
صحیح سنن ابوداؤد، کتاب الحدود، رقم: 4426۔
”جناب ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دو مرتبہ زنا کا اعتراف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں واپس لوٹا دیا۔ ماعز رضی اللہ عنہ پھر حاضر ہوئے اور دو مرتبہ زنا کا اعتراف کیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم نے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی دے دی ( تب لوگوں کو حکم دیا ) جاؤ اسے سنگسار کر دو۔ “

تیسری مثال:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ
(5-المائدة:3)
”حرام کیا گیا ہے تم پر مردار ، خون، خنزیر کا گوشت اور ہر وہ جانور جس پر ذبح کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی کا نام لیا جائے ۔ “
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أحلت لنا ميتتان ودمان، فأما الميتتان: فالجوت والجراد وأما الدمان: فالكبد والطحال»
مسند احمد : 97/2ـ سلسلة الصحيحة رقم: 1118 ۔ سنن ابن ماجه، کتاب الصيد، رقم: 97/2، 3218۔ صحیح الجامع الصغير رقم: 210.
”ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیے گئے ہیں: دو مردار، مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں ۔“
اس آیت میں کچھ حرام چیزوں کو بیان کیا گیا، ان میں سے مردار بھی ہے، لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار میں سے مچھلی اور ٹڈی کی تخصیص فرمادی کہ یہ دونوں مردار حلال ہیں ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خون بھی حلال فرمائے کہ ان خونوں کو بھی کھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سمندر کا مردار حلال ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«سئل عن البحر قال: هو الطهورماءه والحل ميته»
سنن ابوداؤد، کتاب الطهارة، رقم: 33۔ سنن ابن ماجه، كتاب الطهارة، رقم: 382، 388۔ صحیح ابن خزیمه، رقم: 112 ۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 380.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار یعنی مچھلی حلال ہے۔ “

چوتھی مثال :

قرآن حکیم میں حکم ربانی ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ
(7-الأعراف:32)
”اے محمد ! ان سے کہو، کس نے اس رزق کی پاکیزہ چیزوں کو اور اللہ کی زینت کو حرام قرار دیا ہے، جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا ہے۔“
اس آیت میں زیب و زینت کی تمام چیزوں کو حلال قرار دیا گیا ہے، لیکن اس چیز کی وضاحت نہ تھی کہ عورتوں کے لیے کیا چیزیں حلال ہیں، اور مردوں کے لیے کیا؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کی ۔ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«أحل الذهب والحرير لإناث أمتي وحرم على ذكورها»
صحیح سنن نسائی کتاب الزينة، رقم: 5148۔ سنن ترمذی، کتاب اللباس، رقم: 172 ۔ سنن ابن ماجه رقم: 3595 ارواء الغلیل، رقم: 277.
”میری اُمت کی عورتوں کے لیے سونا اور ریشم حلال کیا گیا ہے اور مردوں کے لیے حرام کیا گیا ہے۔“

پانچویں مثال :

قرآن مجید میں ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
(5-المائدة:6)
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھولو، سروں پر مسح کر لو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھولیا کرو ۔“
اس آیت میں وضو کا حکم دیا گیا، لیکن اعضا کو دھونے کی کیفیت اور کتنی بار دھونا ہے،سر کا مسح کیسے کرنا ہے؟ کتنی دفعہ کرنا ہے؟ اس کی وضاحت حدیث رسول ہی کرتی ہے۔ چنانچہ سیدنا حمران سے روایت ہے کہ:
«أن عثمان رضی اللہ عنہ دعا بوضوء فأفرغ على يديه من إنائه فغسلها ثلاث مرات ثم أدخل بيمينه فى الإناء، ثم تمضمض واستنشق واستنثر ثم غسل وجهه ثلاثا ويديه إلى المرفقين ثلاثا، ثم مسح برأسه، ثم غسل كل رجل ثلاثا ، ثم رأيت النبى صلی اللہ علیہ وسلم يتوضأ وضوني هذا»
صحیح مسلم کتاب الطهارة رقم : 538۔ سنن ابی داود کتاب الطهارة، رقم: 106 ۔ سنن ابن ماجه كتاب الطهارة وسننها، رقم: 285۔ صحیح بخاری، کتاب الوضو باب المضمضة في الوضو رقم: 164.
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور برتن سے دونوں ہاتھوں کو تین بار دھویا پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا، کلی کی ، ناک میں پانی چڑھایا، ناک جھاڑا پھر اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا اور کہنیوں تک بازو تین مرتبہ دھوئے، پھر سر کا مسح کیا پھر تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے، پھر فرمایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔ “

چھٹی مثال :

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ
(2-البقرة:187)
”کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سیاہ دھاگہ سفید دھاگے سے نمایاں ہو جائے۔“
اس آیت میں مذکور سفید اور سیاہ دھاگے سے کیا مراد ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ سمجھ سکے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مشکل پیش آئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ سفید دھاگے سے دن اور سیاہ دھاگے سے رات مراد ہے، تو آیت کا مفہوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سمجھ میں آیا ورنہ پریشان تھے، چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے ایک سفید دھاگہ اور ایک سیاہ دھاگہ اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔ سحری کے وقت ان دھاگوں کو قریب رکھ کر دیکھتے رہے، جب دونوں دھاگوں کا رنگ الگ الگ واضح نظر آنے لگا تو کھانا پینا بند کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کا علم ہوا تو از راہ مزاح فرمایا کہ تمہارا تکیہ تو بڑا لمبا چوڑا معلوم ہوتا ہے، جس میں رات اور دن دونوں سما جاتے ہیں ، پھر آپ نے عدی رضی اللہ عنہ کا ابہام دور فرمایا اور اصل حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہاں سیاہ اور سفید دھاگے سے مراد وہ نہیں ہیں، بلکہ رات کی تاریکی سفیدی سحر مراد ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت پر بطور تائید ( من الفجر ) کے الفاظ نازل ہوئے ۔
صحیح بخاری کتاب التفسير باب (وكلوا واشربوا حتى يتيين ) البقره : 187/2، رقم : 4509 ۔ 4511

ساتویں مثال :

قرآن حکیم میں ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(5-المائدة:38)
”چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کے جرم کا بدلہ ہےاور اللہ کی طرف سے عبرت کا سامان اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “
اس آیت میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے لیکن یہ وضاحت نہیں ہے کہ کتنے مال پر ہاتھ کاٹنا ہے؟ کہاں سے کاٹنا ہے؟ اور کس چیز پر ہاتھ نہیں کٹے گا، ان تمام چیزوں کی وضاحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتی ہے۔ سید نا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
«قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا قطع فى ثمر ولا كثر»
سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، رقم: 4388۔ سنن نسائی، کتاب قطع السارق، رقم: 4960، سنن ابن ماجه، كتاب الحدود، رقم: 2593 و 2593۔ ترمذی، کتاب الحدود عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رقم: 1449 مسند احمد: 463/3۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ پھل میں اور کھجور کی گری میں ہاتھ نہیں کٹتا۔ “
فرمان الہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(2-البقرة:278)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ، جو سود باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔“
اس آیت میں سود سے روکا گیا ہے، لیکن سود کی کلی وضاحت موجود نہیں ہے کہ سود کیا ہے؟ کن چیزوں میں ہے؟ کب ہو گا؟ کب نہیں ہوگا؟ ان تمام سوالوں کا جواب حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے تو گویا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تفسیر کرتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے،برابر برابر اور نقد بنقد ہونا چاہیے ۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ مانگا اس نے سودی کاروبار کیا ۔
صحیح مسلم کتاب المساقاة، رقم: 1584.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!