انبیاء کی زندگیوں کو صرف ان کے معجزات کی بنیاد پر پرکھنا ہی کافی نہیں؛ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے انسانیت پر کس حد تک اثر ڈالا اور انسانی فکر و عمل کو ایسی کون سی سمتیں دیں جو دور رس اثرات کی حامل ہیں۔ اسی نقطہ نظر سے غیر مسلم مؤلفین نے بھی محمد ﷺ کی انسانی تاریخ پر اثرات کے حوالے سے ایسے مضامین لکھے ہیں کہ عقل والے حیران رہ جاتے ہیں۔
’محمد ﷺ کی تلوار‘ کا جواب
محمد ﷺ کے "جہاد” بمعنی "قتال” کے بارے میں کیے گئے اعتراضات کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے۔ دراصل، ایک نبی کی "دلیل” کی قوت اس کے "جدال” میں ظاہر ہوتی ہے۔ قرآنی اندازِ خطاب اس کی بہترین مثال ہے، جو باطل کو نیست و نابود کر دینے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ محمد ﷺ کے عہد کی حجت و بیان اس کا عملی نمونہ ہے۔
اہل کتاب کے ساتھ جدال
کئی مثالیں محمد ﷺ کے عہد مکی و مدنی سے دی جا سکتی ہیں، مگر یہاں ہم اہل کتاب کے ساتھ ہونے والے مباحثے کا ایک مختصر منظر پیش کرتے ہیں۔ بائبل کے عہد جدید میں بھی انہوں نے مسیح علیہ السلام کا وہ اعتماد دیکھا، جو ایک سچے نبی کا خاصہ ہے۔ اسی طرح محمد ﷺ کی شخصیت میں بھی ایک غیر متزلزل یقین دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ معرکہ دراصل "ایمان بالغیب” کا ہے، جس میں کچھ پردے حائل رکھنا "پلان” کا حصہ ہے۔
نجران کے کلیسا کا مقام
عرب میں نجران کا کلیسا رومن ایمپائر کی سرپرستی میں کعبہ کے بعد سب سے نمایاں عبادت گاہ شمار ہوتا تھا۔ 9 ہجری میں نبی ﷺ نے نجران کے اسقفِ اعظم حارثہ بن علقمہ کو ہدایت قبول کرنے یا جزیہ ادا کرنے کا پیغام بھیجا۔ اس پیغام کے بعد نجران کا ایک بڑا وفد مدینہ آیا۔ اسی موقع پر سورۃ آل عمران کا ابتدائی حصہ نازل ہوا۔
نجران کے وفد کا مسجد نبوی میں قیام
نجران کے ساٹھ عیسائی نمائندوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھنے کی اجازت بھی دی گئی۔ نبی ﷺ نے لوگوں کو انہیں نماز سے روکنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ”اِن کو چھوڑ دو۔“
اسلام قبول کرنے کی دعوت
نبی ﷺ نے نجران کے دو چوٹی کے عیسائی علماء کو خطاب کرتے ہوئے کہا: "خدا کے فرماں بردار بندے بن جاؤ”۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ خدا کے فرماں بردار ہیں، مگر نبی ﷺ نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ تم خدا کے یکسو فرماں بردار نہیں ہو۔
قرآن کی وضاحت اور عیسائیت کی حقیقت
جب عیسائی وفد نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو سورہ آل عمران کی آیات نازل ہوئیں، جس میں مسیح علیہ السلام کی حقیقت کو بیان کیا گیا:
”عیسیٰ ؑ کی مثال خدا کے ہاں ایسی ہی تو ہے جیسی آدم ؑ کی…”(آل عمران: ۹۵-۲۶)
اسی آیت کے بعد مباہلہ کی دعوت دی گئی:
”پھر اگر کوئی شخص علم (وحی)آجانے کے بعد اس بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اسے کہیے: آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلالیں…”(آل عمران: 61)
یہود و نصاریٰ کے درمیان بحث
یہود اور نصاریٰ ابراہیم علیہ السلام پر اپنا حق جتا رہے تھے۔ اس پر قرآن نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”ابراہیم نہ کبھی یہودی تھا اور نہ عیسائی، وہ تو تھا خدا کا یکسو فرماں بردار…”(آل عمران: ۵۶)
یہودی اور عیسائی دونوں نبی ﷺ سے کہنے لگے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم مسیح علیہ السلام کو چھوڑ کر آپ کو پوجنے لگیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے انہیں اس کام کے لیے مبعوث نہیں کیا۔
مباہلہ کا واقعہ
پھر مباہلہ کے لیے نبی ﷺ اپنے خاندان کے ساتھ تیار ہو کر نکلے، جبکہ نجران کے عیسائی مباہلہ سے انکار کر کے جزیہ قبول کرنے پر راضی ہوگئے۔ اس موقع پر نجران کے لوگوں کو ایک معاہدہ دیا گیا جس میں ان کے مذہبی حقوق کا تحفظ فراہم کیا گیا:
”شروع اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے… ان کا کوئی بشپ نہ بدلا جائے گا، ان کا کوئی راہب اور کاہن نہ بدلا جائے گا…”(از زاد المعاد، مؤلفہ ابن القیم)
محمد ﷺ کی دلیل اور تلوار کا چرچا
آج کے اعتراضات اصل میں محمد ﷺ کی تلوار سے نہیں بلکہ اس حق سے ہیں جو وہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے پاس "محمد ﷺ کی دلیل” کے سامنے آنے کی ہمت نہیں، اور اسی لیے وہ تلوار کے خلاف بول کر اپنے دل کا غبار نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔