« باب استرالمؤمن على نفسه »
مومن کو اپنے عیوب چھپانے چائیں
❀ « عن أبى هريره يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:” كل امتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة ان يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله عليه، فيقول: يا فلان عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه .» [متفق عليه: رواه البخاري
6069، ومسلم 2990. واللفظ للبخاري.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”علانیہ گناہ کرنے والوں کے سوا میرا ہر امتی بخش دیا جائے گا۔“ اعلانیہ گناہوں کے ارکتاب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک شخص نے رات میں کوئی برا کام کیا اور اللہ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تھی لیکن جب وہ صبح کرتا ہے تو لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ اے فلاں میں نے رات میں یہ اور یہ برا کام کیا۔ جب کہ اس کے رب نے رات کو اس کے اوپر پردہ ڈال دیا تھا۔ لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
❀ «عن ابي مالك الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” الطهور شطر الإيمان، والحمد لله تملا الميزان، وسبحان الله والحمد لله تملآن او تملا ما بين السماوات والارض، والصلاة نور، والصدقة برهان، والصبر ضياء، والقرآن حجة لك او عليك، كل الناس يغدو، فبائع نفسه فمعتقها او موبقها .» [صحيح: رواه مسلم 223]
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاکی آدھا ایمان ہے۔ اور «الحمد لله» میزان کو بھر دیتا ہے۔ «سبحان الله» اور «الحمد لله» آسمان اور زمین کے در میان کے خلا کو پر کر دیتے ہیں۔ نماز نور ہے۔ صدقہ دلیل ہے۔ صبر روشنی ہے۔ اور قرآن تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف حجت ہے۔ ہر شخص صبح کے وقت نکلتا ہے، پس اپنے نفس کو بیچ کر اسے جہنم سے آزاد کرنے والا ہے یا اس کو ہلاک کرنے والا ہے۔“
❀ «عن عبد الله بن مسعود قال : قسم النبى صلى الله عليه وسلم قسمة كبعض ما كان يقسم، فقال رجل من الانصار: والله إنها لقسمة ما اريد بها وجه الله، قلت: اما انا لاقولن للنبي صلى الله عليه وسلم، فاتيته وهو فى اصحابه فساررته، فشق ذلك على النبى صلى الله عليه وسلم وتغير وجهه وغضب، حتى وددت اني لم اكن اخبرته، ثم قال: قد اوذي موسى باكثر من ذلك فصبر . » [متفق عليه: رواه البخاري 6100، ومسلم 1062: 141]
حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم فرمایا، جیسا کہ عام طور پر تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ تو ایک انصاری شخص نے کہا: اللہ کی قسم ! اس تقسیم سے اللہ کی خوش نودی مقصود نہیں تھی۔ میں نے کہا: میں یہ بات ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہوں گا۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ میں نے راز دارانہ انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہہ دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بہت ناگوار گزری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور ناراض ہو گئے۔ یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ میں نے آپ کو اس کی خبر نہ دی ہوتی تو اچھا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انھوں نے برداشت کیا۔“
❀ «عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : المؤمن الذى يخاط الناس ويصبر على اذاهم اعظم اجرا من الذى لا يخالطهم، ولا يصبر على اذاهم . » [صحيح: رواه الترمذي 2507، وابن ماجه 4032، وأحمد 5022 واللفظ له.]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مومن جو لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان کی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ زیادہ بڑے اجر کا مستحق ہے، اس مومن کے مقابلے میں جو لوگوں سے کنارہ کش رہتا ہے، اور ان کی تکلیفوں کو برداشت بھی نہیں کرتا۔“