مسلمان عورت کا کافرہ عورت سے پردہ
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

ہمارے گھر میں غیر مسلم خدمتگار خواتین ہیں، کیا مجھ پر ان سے پردہ کرنا واجب ہے ؟ کیا وہ میرے کپڑے دھو سکتی ہیں ؟ جبکہ میں ان میں نماز بھی ادا کرتی ہوں۔ نیز کیا میرا ان کے سامنے ان کے دین کے نقائص بیان کرنا اور دین حنیف کے امتیازات بیان کرنا جائز ہے ؟

جواب :

① غیر مسلم عورتوں سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے، علما کے صحیح قول کی رو سے ان کا حکم بھی مسلمان عورتوں جیسا ہے۔ ان کے کپڑے اور برتن دھونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتیں تو ان کا تعاقد (معاہدہ) ختم کر دینا چاہئیے۔ اس لئے کہ جزیرۃ العرب میں غیر مسلموں کا موجود رہنا جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ کام کاج کے لئے غیر مسلموں کو یہاں لایا جائے۔ چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں، مزدور ہوں یا خادم اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب سے غیر مسلموں کو نکال باہر کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اس میں دو دین باقی نہیں رہنے چائیں، کیونکہ جزیرۃ العرب اسلام کی گود اور آفتاب نبوت کا مطلع ہے ‘ لہٰذا ا یہاں صرف دین اسلام ہی باقی رہ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اتباع حق اور اس پر ثابت قدمی کی توفیق عطا فرمائے اور غیر مسلموں کو اس میں داخل ہونے اور جو اس کے خلاف ہو اسے چھوڑ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
② آپ غیر مسلم خادماؤں کو اسلام کی دعوت دے سکتی ہیں، ان کے دین میں جو نقائص اور مخالفت حق ہے اس کو بیان کر سکتی ہیں اور انہیں بتا سکتی ہیں کہ اسلام تمام ادیان سابقہ کے لئے ناسخ ہے۔ نیز یہ کہ اسلام ہی وہ دین حق ہے جسے دے کر اللہ رب العزت نے تمام رسولوں کو مبعوث فرمایا اور اسی دین کی اشاعت و سربلندی کے لئے کتابیں نازل فرمائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ [3-آل عمران:19]
”یقیناً پسندیدہ دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔“
دوسری جگہ فرمایا :
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ [3-آل عمران:85]
” اور جو شخص اسلام کے علاوہ اور دین تلاش کرے تو وہ ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔“
لیکن ایسی گفتگو آپ کو علم اور بصیرت کے ساتھ ہی کرنی چاہئیے کیونکہ بغیر علم کے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے متعلق غیر ذمہ دارانہ بات کرنا انتہائی طور پر غیر پسندیدہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا :
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [7-الأعراف:33]
”اے نبی ! آپ فرما دیجئیے ! کہ میرے پروردگار نے تو بس بیہودگیوں کو حرام قرار دیا ہے، ان میں سے جو ظاہر ہیں ان کو بھی اور جو پوشیدہ ہیں ان کو بھی اور گناہ کو اور ناحق کسی پر زیادتی کو بھی اور اس کو بھی کہ تم اللہ کے ساتھ شریک کرو جس کے لئے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور اس کو بھی کہ تم اللہ کے زمے ایسی بات جھوٹ لگا دو جس کی تم کوئی سند نہیں رکھتے۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں علم کے بغیر گفتگو کرنے کو سنگین تر قرار دیا ہے جو کہ اس کی سنگین حرمت اور اس پر مرتبہ خطرات کی شدت کی دلیل ہے۔ ایک جگہ پر ارشاد باری ہے :
قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ [12-يوسف:108]
”( اے نبی !) آپ فرما دیجئیے میری راہ یہی ہے۔ میں اور میرے فرماں بردار اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے بعد اور اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“
اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر اس بات سے آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے گفتگو کرنا ان چیزوں میں سے ایک ہے جن کا شیطان حکم دیتا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ٭ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [2-البقرة:169]
”اے لوگو ! زمین میں جتنی چیزیں حلال اور پاکیزہ موجود ہیں ان میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں بس برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا بھی کہ تم اللہ پر ایسی باتیں گھڑ لو جن کا تمہیں علم نہیں۔“
میں اپنے لئے اور آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے توفیق ہدایت اور صلاح کی دعا کرتا ہوں۔
( سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے