مستشرقین کے منفی اثرات: اسلام کی علمی بقا کا چیلنج

عالم اسلام میں مستشرقین کے اثرات کے پیش نظر

عالم اسلام میں مستشرقین کے اثرات کے پیش نظر ضروری ہے کہ صالح الفکر مسلمان محققین اور مصنفین تیار کیے جائیں۔ یہ محققین اسلامی موضوعات پر جدید تحقیق کے طریقے اور مستند ماخذ و مراجع کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی، وہ ایسے علمی و تحقیقی انداز، دلائل، اور استدلال کو بروئے کار لائیں جو مستشرقین کی تحقیق سے ہر لحاظ سے بہتر ہو۔ اس کے ساتھ ہی ان کی علمی کمزوریوں، افتراء پردازیوں اور جھوٹے دعووں کو بے نقاب کرکے مسلمانوں کے لیے درست رہنمائی فراہم کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ مستشرقین کی مسموم فکر اور فکری غلامی سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

میکاؤلی کے اصول کا استعمال

مستشرقین نے میکاؤلی کے اس اصول کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا کہ "بڑا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر ذریعہ جائز ہے”۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ اپنایا، حالانکہ یہ اصول سیاستدانوں کے لیے تھا۔ مغربی ممالک کی سیاسی و معاشی برتری کے باعث عالم اسلام پر ہر محاذ پر غلبہ حاصل کر لیا گیا ہے، اور وہ اپنے مقاصد کے فروغ کے لیے زندگی کے ہر شعبے پر قابض ہوچکے ہیں۔ وہ اسلام کے حوالے سے نرم رویہ اور انصاف پسندی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، لیکن ہمیں قرآن کا یہ اعلان ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ:

’’تم سے یہود و نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں‘‘
(البقرہ: 120)

سیرت پر مستشرقین کے حملے

مستشرقین نے مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لیے سب سے اہم ہتھیار سیرت پر حملے کو بنایا۔ ان کی تحقیق کا مقصد سیرتِ طیبہ کی اصلی روح کو مجروح کرنا اور واضح صداقتوں کو جھٹلانا تھا۔ وہ سیرت کے کسی موضوع پر پہلے ایک منفی موقف قائم کر لیتے ہیں اور پھر کمزور روایات ڈھونڈ کر ان سے غلط نتائج نکالتے ہیں۔ جیسے کہ یشار بن بود، ابونواس جیسے افراد اور ان کی تحریریں، "کتاب الاغانی”، "کتاب اخوان الصفا” اور ابو نعیم کی "کتاب الفتن” وغیرہ۔ مزید یہ کہ، بعض جعلی کتابیں، جیسے "المصحف” جو عبداللہ بن ابن داود سے منسوب ہے، اور "کتاب نسب قریش” جو زبیر بن بکار سے منسوب ہے، ان کے مقاصد کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوئیں۔

ان مستشرقین کی تحقیقات بعض اوقات مسلمانوں کے لیے فائدہ مند بھی ثابت ہوئیں، مگر ان کی تحقیقات میں موجود زہر اسلامی تاریخ اور دین کے روشن حقائق کو بگاڑتا رہا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اس تشویش کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

"ان کی یہ قابل قدر سرگرمیاں ہمارے شکریہ کی مستحق ہیں؛ لیکن ظاہر ہے کہ یہ علوم ان کے نہ تھے، اس لیے وہ ہمدردی اور محبت جومسلمانوں کو اپنی چیزوں سے ہوسکتی ہے ان کو نہیں ہے اس لیے ان کی تحقیق وتدقیق سے جہاں فائدہ ہورہا ہے، سخت نقصان بھی پہنچ رہا ہے، جس کی تلافی آج مسلمان اہل علم کا فرض ہے، ان میں ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے مسیحی نقطہ نظر سے اسلامی علوم پر نظرڈال کر تحقیق وریسرچ کے نام سے ایک نیامحاذِ جنگ بناکر، اسلام، داعی اسلام، اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب وتمدن پر بے بنیادحملہ کررہا ہے، قرآن مجید، حدیث، تصوف، سیر، رجال، کلام اور فقہ سب ان کی زد میں ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ یورپ کے اس رنگ کے لٹریچر سے اسلام کو کس قدر شدید نقصان پہنچا ہے اور پہنچے گا؛ اگریہ زہر اسی طرح پھیلتا رہا اور اس کا تریاق نہیں تیار کیا گیا تو معلوم نہیں کس حد تک نوجوان مسلمانوں کے دماغوں میں سمیت سرایت کرجائے گی”۔

(اسلام اور مستشرقین: 1/11۔12، مرتب عبدالرحمان اصلاحی)

مستشرقین کی اسلام سے متعلق تحقیقات کے نقصانات

نو مسلم یورپی مفکر محمد اسد نے بھی مستشرقین کی کاوشوں اور خیالات کو عام مغربی ذہنوں کو مسموم کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کی تحریریں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور تفہیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں، جس کی وجہ سے مغربی لوگ اسلام کو وقعت نہیں دیتے اور اسے عیسائیت و یہودیت سے کمتر سمجھتے ہیں۔

علمائے ہند کی ذمہ داری

موجودہ دور میں علمائے ہند کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ:

"اسلام وہ مذہب ہے کہ جس دن وہ دین بنا اسی دن وہ سیاست بھی تھا۔ اس کا منبر، اس کا تخت، اس کی مسجد، اس کی عدالت، اس کی توحید نمرودوں اور فرعونوں، قیصروں اور کسراؤں کی شہنشاہی کے مٹانے کا پیغام تھی۔ صحابہ اور خلفاء کی پوری زندگیاں ان مرقعوں سے بھری پڑی ہیں اور وہی اسلام کی سچی تصویریں ہیں اور جب تک علماء علماء رہے وہی ان کا اسوہ تھا۔ آج ضرورت ہے کہ اسی نقش قدم پر چلیں جو ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے۔”

آج علماء کو صرف پڑھانا، مسئلے بتانا اور فتوے دینا کافی نہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ علماء اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں اور اپنے کردار کو عملی خدمت اور سعی و عمل تک وسیع کریں۔ مستشرقین کے چیلنج کے پیش نظر علامہ سید سلیمان ندوی کی اس نصیحت پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ:

"ہر آبادی جہاں علماء رہیں وہ ان کی سعی اور خدمت سے آباد رہے۔ وہاں جاہلوں کو پڑھانا، نادانوں کو سمجھانا، غریبوں کی مدد کرنا اور مسلمانوں کو ان کی کمزوریوں سے آگاہ کرنا ایک عالم دین کا فرض ہے۔”

(ماخوذ از المستشرقون والاسلام واصلاحی خطبات)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے