مسبوق نمازی کی باقی رکعات کی ادائیگی کے 5 اصول
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب الصلاة۔صفحہ 293

سوال

نماز میں تاخیر سے شامل ہونے والے شخص (مسبوق) کے لیے باقی رکعات کس طرح ادا کرنی چاہییں؟

الجواب :

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح حدیث کی روشنی میں اصول

حدیثِ مبارکہ میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے:

"أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا ، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا”

’’جتنی نماز امام کے ساتھ پا سکو، وہ پڑھو، اور جو رکعات رہ جائیں، ان کو مکمل کرو۔‘‘
(صحیح بخاری: 635، صحیح مسلم: 603)

محدث عبد اللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا وضاحتی بیان

مولانا عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسبوق (تاخیر سے شامل ہونے والا نمازی) امام کے فارغ ہونے کے بعد جو نماز پڑھے گا، وہ اس کی آخری نماز ہوگی۔

اور جو رکعتیں امام کے ساتھ ادا کی ہیں، وہ اس کی پہلی نماز شمار ہوں گی۔

اس لیے کہ حدیث میں فوت شدہ رکعات کے لیے "اتمام” (مکمل کرنا) کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو کہ بعد سے مکمل کرنے کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔

اتمام اور قضا کا مفہوم

بعض روایات میں "اتمام” کے بجائے "قضاء” کا لفظ آیا ہے، لیکن یہ اس مفہوم کے خلاف نہیں کیونکہ:

"قضاء” کے معنی بھی "مکمل کرنے” کے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ﴾
﴿١٠﴾… سورة الجمعة

’’جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ (روزی تلاش کرنے کے لیے)‘‘

آخری رکعت اور تلاوت کا مسئلہ

چونکہ مسبوق کی بعد میں پڑھی گئی نماز اس کی آخری رکعت ہے، تو اس میں "ثناء” (سبحانك اللهم…) نہیں پڑھنی چاہیے۔

اگر غلطی سے پڑھ لے تو معاف ہے، جیسے قرآن میں متشابہ آیتیں یاد کرنے میں غلطی ہو جاتی ہے۔

لیکن جان بوجھ کر پڑھنا درست نہیں، چاہے وہ مغرب کی نماز ہو، چار رکعت والی ہو یا دو رکعت والی ہو۔

التحیات اور بیٹھنے کا طریقہ

التحیات بھی اسی اصول کے مطابق پڑھی جائے:

اگر امام کے ساتھ ایک رکعت پائی ہے، تو ایک رکعت مکمل کر کے بیٹھے۔

اگر رکوع میں امام کے ساتھ ملا ہے، تو اس رکعت کو شمار نہ کرے۔

(فتاویٰ اہل حدیث، جلد 1، صفحہ 570، 571، از عبد اللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ)

سلف صالحین کی تائید

محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کی تائید سلف صالحین سے بھی ہوتی ہے:

امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی رائے کے حامل تھے۔

(السنن الکبری للبیہقی، جلد 2، صفحہ 299)

ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا کہ:

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ امام کے ساتھ پائی گئی نماز کو آخری نماز شمار کرتے تھے:

"يجعل ما أدرك مع الامام آخر صلاته”
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 2، صفحہ 324، حدیث: 7121)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نماز کو پہلی رکعات سے شروع کرتے تھے، چاہے امام کی نماز آخری ہو۔

نتیجہ

امام کے ساتھ ادا کی گئی نماز نمازی کی پہلی نماز شمار ہو گی۔

امام کے فارغ ہونے کے بعد پڑھی گئی نماز نمازی کی آخری نماز شمار ہو گی۔

اس اصول کی تائید قرآن، حدیث، آثارِ صحابہ، اور سلف صالحین کی اقوال سے ہوتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1