مسئلہ حاضر و ناظر قرآن و حدیث کی روشنی میں

کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ کسی اور کو بھی کہا ہے کہ وہ حاضر و ناظر ہے؟

الجواب

حاضر سے مراد موجود اور ناظر سے مراد د یکھنے والا، یہ صفت صرف اللہ تعالٰی کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے. کچھ مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ صفت اور
ہستیوں میں بھی موجود ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں اللہ پاک نے کیا ارشاد فرمایا ہے:

➊ ’’وہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر جا ٹھہرا ، جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا ہے اور جو اس پر چڑھتا ہے، اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو ، اور اللہ جو تم کرتے ہو دیکھتا ہے‘‘
(الحدید 4)

➋ ’’ اور تم جس حال میں ہوتے ہو یا قرآن میں سے کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی کام کرتے ہو جب اس میں مصروف ہوتے ہو ہم تمہارے سامنے ہوتے ہیں اور تمہارے رب سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی مگر کتاب روشن میں‘‘
(یونس 61)

➌ ’’ تو نے نہ دیکھا کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں ، کہیں نہیں ہوتا مشورہ تین کا جہاں وہ نہیں ان میں چوتھا اور نہ پانچ کا جہاں وہ نہیں ان میں چھٹا ، اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ جہاں وہ نہیں ان کے ساتھ جہاں کہیں ہوں، پھر جتا دے گا ان کو جو انھوں نے کیا قیامت کے دن ، بے شک اللہ کو معلوم ہے ہر چیز‘‘
(المجادلہ 7)

➍ ’’اور اللہ کے ساتھ کسی کو حاکم نہ پکارو، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، سوائے اللہ کی ذات کے ہر چیز کو فناہ ہونا ہے ، حکم اسی کا ہے اور اس کی طرف لوٹ کر جاؤ گئے“

(القصص 88 )

➎ ’’ جو زمین پر ہے سب کو فناہ ہونا ہے. اور تمہارے رب کی ذات جو صاحب جلال و عظمت ہے باقی رہے گی“

(الرحمٰن 26-27 )

➏ ’’اور اللہ ہی کی ہے مشرق اور مغرب ، سو جس طرف تم منہ کرو وہاں ہی متوجہ ہے اللہ ، بر حق اللہ گنجائش والا ہے خبر رکھتا‘‘

(البقرہ 115)

➐ ’’اور نہیں دیا ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ جینا ، پھر کیا اگر تو مر گیا تو وہ رہ جاویں گے. ہر جی کو چکھنی ہے موت اور ہم تم کو جانچتے ہیں برائی سے اور بھلائی سے آزمانے کو ، اور ہماری
طرف پھر آؤ گے‘‘

(الانبیاء 34-35)

➑ ’’اور محمد تو ایک رسول ہے، ہو چکے پہلے اس سے بہت رسول ، پھر کیا اگر وہ مر گیا یا مارا گیا تم پھر جاؤ گے الٹے پاؤں ، اور جو کوئی پھر جاوے گا الٹے پاؤں وہ نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ ، اور اللہ ثواب دے گا بھلا ماننے والوں کو‘‘

(ال عمران 144)

➒ ’’بے شک تو بھی مرتا ہے اور وہ بھی مرتے ہیں‘‘

( الزمر 30)

➓ ’’یہ خبریں ہیں غیب کی ہم بھیجتے ہیں تجھ کو ، اور تو نہ تھا ان کے پاس ، جب ٹھہرانے لگے اپنا کام اور فریب کرنے لگے‘‘

(یوسف 102)

⓫ ’’اور تو نہ تھا غرب کی طرف ، جب ہم نے بھیجا موسٰی کو حکم ، اور نہ تھا تو دیکھتا لیکن ہم نے اٹھا ئیں کتی سنگتیں ، پھر لمبی گزری ان پر مدت ، اور تو نہ رہتا تھا مدین والوں میں ، ان کو سناتا ہماری آیتیں ، پر ہم رہے ہیں رسول بھیجتے اور تو نہ تھا طور کے کنارے ، جب ہم نے آواز دی ، اور لیکن یہ مہر ہے تیرے رب کی ، کہ تو ڈر سنا دے ایک لوگوں کو ، جن کے پاس نہیں آیا کوئی ڈر سنانے والا تجھ سے پہلے ، شاید وہ یا درکھیں

(القصص 44 تا 46 )

⓬ ’’جس دن اللہ جمع کرے گا رسولوں کو پھر کہے گا تم کو کیا جواب دیا، بولیں گے ہم کو علم نہیں ، بیشک تو ہی غیبوں کو جانتا ہے“

(المائدہ 109)

⓭ مسلمانوں میں سے کچھ سورہ احزاب آیت 45 میں شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر کرتے ہیں عربی میں شاہد اور شہید کے معنی حاضر اور گواہ کے ہیں. اگر اس آیت کو سورہ المائدہ آیات 116-117 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے. ان آیات میں اللہ پاک فرماتا ہے:

اور جب کہے گا اللہ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہراؤ مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوائے اللہ کے، بولا تو پاک ہے، مجھ کو نہیں بن آتا کہ کہوں جو مجھ کو نہیں پہنچتا، اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا‘ تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے، بر حق تو ہی ہے جانتا چھپی بات میں نے نہیں کہا ان کو مگر جو تو نے حکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا اور میں ان سے خبر دار تھا جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے بھر لیا تو تو ہی تھا خبر رکھتا ان کی اور تو ہر چیز سے خبر دار ہے‘‘

(سورہ المائده آیات 116-117).

ان آیات سے معلوم ہوا کہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں میں موجود تھے تو ان کے حالات کی خبر رکھتے رہے، اور جب اپنی قوم میں موجود نہ رہے تو صاف کہہ دیا کہ اس کے بعد اے اللہ تو ہی ان کے حالات کی خبر رکھتا رہا کیونکہ اے اللہ تو ہر چیز سے خبر دار (شھنید ) ہے۔

⓮ اب قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی آیت 143 دیکھئے ’’اور اسی طرح ہم نے تم کو سب معتدل بتایا کہ الله تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘ اب اس آیت میں امت کے لئے شہید کی جمع شہداء استعمال کی گئی اور رسول اللہ ﷺ کے لئے شہید استعمال کیا گیا، تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ سے لیکر آج تک جتنے مسلمان مرچکے ہیں وہ حاضر و ناظر ہیں جیسا کہ کچھ لوگ شہید کے معنی حاضر و ناظر کرتے ہیں یقیناً ایسا نہیں ہے۔

او پر والی تمام آیات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حاضر و ناظر صرف اپنے آپ کو کہا ہے اور کسی کونہیں کہا ہے۔

مزید ثبوت کے لئے یہ آیات اور ان کا صحیح ترجمہ قرآن مجید سے سمجھ کر پڑھ لیجئے

البقره 133 ال عمران 44 ‘185 ‘النساء 108 ، الانفال 33، هود 5 يوسف 3 ، رعد 10 ‘40 ‘الحج 17 ‘الفرقان 58 ‘العنكبوت 57 ‘الزخرف 80 ‘الحجرات 18 ‘ق 16 الحديد 3-4 الواقعه 83 تا 85 ‘الملک -13-14 ‘انشقاق 15

کیا رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ وہ حاضر و ناظر ہیں ؟

➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو میری روح اللہ تعالیٰ میرے جسم میں لوٹا دیتا ہے تا کہ میں اس کا جواب دوں۔
(ابوداؤد)

➋ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے زمین پر چلتے ہیں اور میر اسلام مجھ تک پہنچادیا جاتا ہے۔
(سنن نسائی ، دارمی)

➌ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری قبر پر آکر سلام بھیجتا ہے تو میں اسے سنتا ہوں ( بیہقی ) محدثین نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے.

➍ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا:

’’ خبر دارا جو لوگ یہاں موجود ہیں ان لوگوں تک پہنچا دینا جو یہاں موجود نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگ جن کو میرا پیغام پہنچے گا وہ ان لوگوں سے زیادہ اسے محفوظ رکھنے والے ہوں گے جو اس وقت سننے والے ہیں تم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا بتاؤ تم میرے متعلق کیا کہو گے انھوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے امانت ادا کر دی اور رسالت کو بیان کر دیا اور نصیحت فرمادی پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے اور لوگوں کی طرف جھکا کر فرماتے اے اللہ تو گواہ رہنا ، اے اللہ تو گو اور بنا، اے اللہ تو گواہ رہنا اس سے معلوم ہوا کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہوتا کہ وہ حاضر وناظر ہیں تو یقیناً فرماتے کہ میں ہر جگہ موجود ہوں گا لہذا میں خود تمام تعلیمات پہنچا دوں گا تمہیں اس کی ضرورت نہیں مگر آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جولوگ یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں تک پہنچا دینا جو یہاں موجود نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگ جن کو میرا پیغام پہنچے گا وہ ان لوگوں سے زیادہ اسے محفوظ رکھنے والے ہوں گے جو اس وقت سننے والے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ حاضر و ناظر ہیں۔

کیا صحابہ کرام نے یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ حاضر وناظر ہیں

➊ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا۔

’’ اے اللہ کے نبی میرا باپ آپ پر قربان آپ کو اللہ دو بار نہیں مارے گا بس جو موت آپ کے حصے میں اللہ نے لکھ دی تھی وہ ہو چکی ابوبکر نکلے اور عمرلوگوں سے باتیں کر رہے تھے ابو بکر نے کہا جی بیٹھو جی انھوں نے نہ مانا پھر کہا بیٹھونہ مانا‘ آخر ابو بکر نے کلمہ شہادت پڑ ھالوگ سب ان کی طرف جھک گئے عمر کو چھوڑ دیا۔ ابو بکر نے کہا اما بعد جو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو محمد ﷺ تو وفات پاگئے ہیں ، اور جو کوئی اللہ عزوجل کی عبادت کرتا ہے تو بے شک اللہ زندہ ہے مرتا نہیں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے‘‘ اور محمد تو ایک رسول ہے، ہو چکے پہلے اس سے بہت رسول ، پھر کیا اگر وہ مر گیا یا مارا گیا تم پھر جاؤ گے الٹے پاؤں ، اور جو کوئی پھر جائے گا الٹے پاؤں وہ نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ اوراللہ ثواب دے گا بھلا ماننے والوں کو (ال عمران 144 ) اللہ کی قسم ایسا معلوم ہوا گویا لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت اتاری ہے یہاں تک کہ ابو بکر نے اس کو پڑھا، اس وقت لوگوں نے سیکھ لیا پھر تو جس نے سنا یہی آیت پڑھ رہا تھا
( صحیح بخاری )

➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے دفن کے وقت قبر پر یہ الفاظ کہے ’’صبر عموماً اچھی چیز ہے سوائے آپ ﷺ کے غم کے، اور بیتابی و بیقراری عموماً ہری چیز ہے سوائے آپ ﷺ کی وفات کے ، اور بلاشبہ آپ ﷺ کی موت کا صدمہ عظیم ہے، اور آپ ﷺ سے پہلے اور آپ ﷺ کے بعد آنے والی ہر مصیبت سبک ہے‘‘

(نہج البلاغہ حکم و نصائح 292)

➌ جناب نبی مکرم ﷺ کی تربیت یافتہ ساتھی جن کے بارے میں سورہ توبہ آیت 100 میں آیا ہے کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ، وہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اور وفات کے بعد آپ ﷺ پر کس طرح نماز کی تشہد میں سلام بھیجا کرتے تھے۔

عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ ﷺ پر اس طرح نماز کی تشہد میں سلام بھیجتے:

(التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِذَا قَالَهَا، أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ)

ترجمہ :
’’ تمام زبان کی عبادتیں اللہ کے لئے ہیں اور بدنی عبادتیں اور مالی عبادتیں بھی ‘سلام ہو تم پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ‘‘ جب آپ ﷺ فوت ہو گئے تو آپ ﷺ پر ہم تشہد میں اس طرح سلام بھیجتے السلام علی النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا لفظ نبی ﷺ پر سلام ہو، اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں‘‘
( صحیح بخاری )

➍ اگر کوئی نماز میں تشہد کی حالت میں رسول اللہ ﷺ پر یہ سلام بھیجتا ہے السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته تو بھی صحیح ہے. اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ بھی حاضر و ناظر ہیں بلکہ یہ تو سلام کا وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو سکھایا اور بالکل وہی الفاظ ہم تک پہنچے جو کہ ہم بھی پڑھتے ہیں اس کی مثال قرآن مجید سے سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی انسانوں اور دوسری چیزوں کو ’’یا ‘‘ سے مخاطب کیا ہے مثلاً :

يا هُلَ الْكِتَبِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِايَتِ اللهِ وَانْتُمْ تَشْهَدُونَ

(ال عمران 70)

یز گرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلم

(مريم 7)

قَالَ أَرَا غِبْ أَنْتَ عَن الهَتِى يَا بُراهِيمُ

(مريم 46)

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَأَيُّهَا الْمَلَا. ..فَا وَ قِدْ لِى يها من….

(القصص 38)

یصا حبی السجن

(يو سف 39)

تو کیا جب ہم تلاوت قرآن پاک کر رہے ہوتے ہیں تو وہ تمام مخلوق جسے اللہ پاک نے ’’یا‘‘ سے مخاطب کیا وہ ہمارے پاس موجود ہوتی ہیں اور ہمیں دیکھ رہی ہوتی ہیں یا جب دنیا کے مختلف حصوں میں قرآن کی تلاوت کی جاری ہو تو وہ تمام چیزیں ایک ہی وقت میں ان تمام جگہوں پر موجود ہوتی ہیں۔ جواب نہیں میں ہو گا حقیقت یہ ہے کہ آج سے ہزاروں برس پہلے جس انداز سے اللہ تعالیٰ نے ’’یا ‘‘ کہہ کر مختلف پیغمبروں، ایمان والوں ، کافروں، عام انسانوں کئی قوموں اور بہت سی چیزوں کو اس مخصوص وقت میں مخاطب کیا تھا، بالکل وہی الفاظ ہم مسلمانوں تک مختلف ذرائع سے پہنچ گئے. اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ جس رب نے کائنات کی تمام اشیاء پیدا کیں صرف وہی حاضر و ناظر ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام اور تابعین بھی صرف اللہ ہی کو حاضر و ناظر سمجھتے تھے کتنا اچھا ہو کہ ہم ان بہترین زمانے والوں کے پیچھے چلیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے اور اس کے بعد مجھے دیکھنے والوں کا اور اس کے بعد مجھے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کا
( صحیح بخاری)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے